آب گوں
{ آب + گوں }
تفصیلات
iدو فارسی اسما |آب| اور گوں| کا مرکب ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور صفت نیز اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٦٤٩ء کو "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔
[""]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر ), صفت ذاتی
آب گوں کے معنی
["١ - گیہوں کا نشاستہ اور گیہوں کا گودا۔ (خزائن الادویہ، 2:7)"]
["\"(حمد و ثنا) رافع حکیم اور صانع قدیم . کی کہ جس کی حکمت سے تمام صفحۂ آبگوں اعشار ثواقب سے مکون ہے۔\" (١٨٥٥ء، مرغوب القلوب فی معراج المجوب، ٥٩)"," گرچہ سراپہ ہے ترا آب گوں پرتری چتون سے ٹپکتا ہے خوں (١٩١١ء، کلیات اسماعیل، ٥٧)"," وہیں کھینچ کر خنجر آب گوں کیا اس نے ایرج کو بس غرق خوں (١٨١٠ء، شاہ نامۂ منشی (ترجمہ)، ششمیر خانی، ٨٣)","\"رخ روشن مکدر ہو جاتا، آنکھیں آبگوں ہو جاتیں۔\" (١٩٣٦ء، پریم چند، پریم چالیسی، ٢٤:١)"]
["١ - ہلکے نیلے کا (خصوصاً آسمان کی صفت)۔","٢ - سفید، گورا، چٹا۔","٣ - تیز، جوہر دار (آہنی ہتھیار)۔","٤ - نمناک (خصوصاً آنکھ وغیرہ کے ساتھ مستعمل)۔"]