آزاد کے معنی
آزاد کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ آ + زاد }
تفصیلات
iیہ اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور اپنی اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی اردو میں بطور اسم صفت مستعمل ہے لیکن گاہے بطور اسم بھی مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٠٩ء میں "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بری مستثنٰے","بے تعلق","بے غم","جس پر کسی قسم کی پابندی نہ ہو","جو کسی کا غلام نہ ہو","جو کسی کی لونڈی نہ ہو","دُنیاداری سے الگ","فقیروں کا ایک فرقہ","قید سے چُھٹا ہُوا","وہ جو غلامی اور کنیزی سے بری ہوجائے"]
اسم
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع : آزادْگان[آ + زاد + گان]
- جمع غیر ندائی : آزادوں[آ + زا + دوں (و مجہول)]
آزاد کے معنی
مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام (١٩٣٦ء، ضرب کلیم، ٨١)
"جب تک کوٹ ڈی جی کے باشندے چنگی اور دیگر محصولات سے آزاد رہیں گے یہ تعلقہ ترقی نہیں کر سکتا۔" (١٩٥٨ء، سہ روزہ، مراد، ٦اکتوبر، ٢)
نہ جراحات سے ڈر اس کو نہ غم سے ناشادحر ہے نام اس کا یہ بندوں میں ہے شہ کے آزاد (١٩٣٨ء، جلیل (فرزند حسن)، مرثیہ (ق)، ٢٣)
"معلوم ہوتا ہے کہ شاہ شجاع کی آزاد پسندی نے میخواروں کو بہت آزاد کر دیا تھا۔" (١٩٠٧ء، شعر العجم، ٢١٨:٢)
"زمین کو قابل زراعت بنانے والی کلوں پر کسانوں کا آزاد قبضہ ہو گا۔" (١٩٤١ء، آزاد سماج، ٦٠)
"سرمست گوشہ نشینی کے باوجود بالکل آزاد بھی نہ تھے نواب خیرپور کے یاد کرنے پر ان کی عیادت کے لیے گئے۔" (١٩٥٣ء، ہفت روزہ |کلیم| سکھر، ٩ مئی، ٣)
"آج خدا کے فضل سے یہ لکھتا ہوں کہ . اب ڈاک آزاد ہے۔" (١٩١٥ء، خطوط حسن نظامی، ٦٤:١)
رہتی ہے تازہ ہر دم دل میں تری محبت آزاد ہر خزاں سے نکلا نہال تیرا (١٩٥٣ء، کلیات ناز، ٣٤)
حر کے عقب میں عازم دشت و غا بھی ہے آزاد بھی ہے سرو ریاض وفا بھی ہے (١٩١٢ء، شمیم، مرثیہ (ق)، ٥)
"جیل جانے کے پہلے بچہ تھا آزاد ہوا تو بوڑھا ہو کر۔" (١٩٥٤ء، شاید کہ بہار آئی، ١٥٧)
آباد تھے پہلے مگر اس وقت ہیں برباد کیا جرم کسی کا کہ ہیں خود فاعل آزاد (١٩٤٨ء، مراثی نسیم،٢٠٧:٣)
"داراشکوہ . شروع میں حضرت میاں (لاہوری) کے سامنے زانوے ادب طے کر کے بیٹھا تھا۔ پھر مجذوب سرمد اور جوگی لال داس جیسے آزادوں کا معتقد ہوا"۔ (١٩٥٣ء، تاریخ مسلمانان پاکستان و بھارت، ٥٢٩:١)
آزاد کی اک آن ہے محکوم کا اک سال کس درجہ گراں سیر ہیں محکوم کے اوقات (١٩٣٦ء، ضرب کلیم، ٧٧)
اس کی قامت سے ہوا ہے سامنا شمشاد کا یہ نیا ہے معرکہ آزاد سے آزاد کا (١٩٠٥ء، یادگار داغ، ١٠)
"تنقید فلسفے کے دائرے میں داخل ہوتی ہے اور ایک بلند اور آزاد ادبی مقام حاصل کرتی ہے۔ (١٩٩٥ء، تنقیدی نظریات، ٨)
میں آنکھیں بچھاؤں وہ شہ حسن گر آئے درویش ہوں آزاد ہوں بستر تو نہیں ہے (١٨٥٣ء، دفتر فصاحت، وزیر، ٢١٩)
آزاد کے جملے اور مرکبات
آزاد تجارت, آزاد رو, آزاد طبع, آزاد فن, آزاد قلم, آزاد لوگ, آزاد مرد, آزاد مزاج, آزاد مشرب, آزاد معاشرہ, آزاد منش, آزاد وار, آزاد وضع
آزاد english meaning
Freeunfetteredunrestraineda class of mendicants who regard themselves as above religious precept and practicea class of mendicants who regard themselves as above religious precept and practisceat easeat largefree thinkerfreemanhermitindependentliberatedone known by sight onlyscot-freeunchaineduncontrolled
شاعری
- اے کہ آزاد ہے ٹک چکھ نمکِ مرغ کباب
تاتو جانے کہ یہ ہوتا ہے اسیری کا مزا - عشق پنجے کی طرح حسن گرفتاری ہے
لطف کیا سرو کے مانند اگر آزاد رہو - جلوہ محسوس سہی‘ آنکھ کو آزاد تو کر
قیدِ آدابِ تماشہ بھی تو محفل سے اٹھا - صیّاد قفس میں مجھے رکھنے سے نتیجہ
میں قید رہوں گا‘ نظر آزاد رہے گی - نہ کر آزاد اے صیّاد‘ پر اتنی عنایت کر
قفس کے سامنے تصویر لٹکا دے گلستاں کی - ہر ایک رُت سے ہیں آزاد پھول زخموں کے
بہار ہو کہ خزاں‘ مسکرائے جاتے ہیں - ہو کے قید بحر سے‘ آزاد قطرے آب کے
گر کے بادل سے صدف کا بھید بن جاتے ہیں کیوں - آسمان کے چاند اور ستارے
تیرے میرے خواب نہ ہوں!
دیر رہیں جو آنکھوں میں تو خواب پرندے بن جاتے ہیں
لاکھ انہیں آزاد کرو یہ پھر کر واپس آجاتے ہیں
یہ جو قفس کے دروازے میں پر پھیلائے بیٹھے ہیں
یہ درماندہ ‘ اوگن ہارے
تیرے میرے خیال نہ ہوں! - گلیاں
(D.J. ENRIGHT کی نظم STREETS کا آزاد ترجمہ)
نظم لکھی گئی تو ہنوئی کی گلیوں سے موسوم تھی
اس میں گرتے بموں سے نکلتی ہُوئی موت کا تذکرہ تھا‘
فلاکت‘ دُکھوں اور بربادیوں کی اذیّت بھری داستاں درج تھی
اِس کے آہنگ میں موت کا رنگ تھا اور دُھن میں تباہی‘
ہلاکت‘ دُکھوں اور بربادیوں کی الم گُونج تھی
نظم کی اِک بڑے ہال میں پیش کش کی گئی
اِک گُلوکار نے اس کو آواز دی
اور سازینے والوں نے موسیقیت سے بھری دُھن بنا کر سجایا اِسے
ساز و آواوز کی اس حسیں پیشکش کو سبھی مجلسوں میں سراہا گیا
جب یہ سب ہوچکا تو کچھ ایسے لگا جیسے عنوان میں
نظم کا نام بُھولے سے لکھا گیا ہو‘ حقیقت میں یہ نام سائیگان تھا!
(اور ہر چیز جس رنگ میں پیش آئے وہی اصل ہے)
سچ تو یہ ہے کہ دُنیا کے ہر مُلک میں شاعری اور نغمہ گری کی زباں ایک ہے
جیسے گرتے بموں سے نکلتی ہُوئی موت کی داستاں ایک ہے
اور جیسے تباہی‘ فلاکت دُکھوں اور بربادیوں کا نشاں ایک ہے
سچ تو یہ ہے کہ اب کرّہ ارض پر دُوسرے شعر گو کی ضرورت نہیں
ہر جگہ شاعری کا سماں ایک ہے
اُس کے الفاظ کی بے نوا آستیوں پہ حسبِ ضرورت ستارے بنانا
مقامی حوالوں کے موتی سجانا
تو ایڈیٹروں کے قلم کی صفائی کا انداز ہے
یا وزیرِ ثقافت کے دفتر میں بیٹھے کلکروں کے ہاتھوں کا اعجاز ہے!! - ہیلن
(مارلو کے اشعار کا آزاد ترجمہ)
’’یہی وہ چہرہ تھا
جس کی خاطر ہزار ہا بادبان کُھلے تھے
اسی کی خاطر
منار ایلم کے راکھ بن کر بھسم ہوئے تھے
اے میری جانِ بہار ہیلن!
طلسمِ بوسہ سے میری ہستی امر بنادے
(یہ اس کے ہونٹوں کے لمسِ شیریں میں کیا کشش ہے کہ روح تحلیل ہورہی ہے)
اِک اور بوسہ
کہ میری رُوحِ پریدہ میرے بدن میں پلٹے
یہ آرزو ہے کہ ان لبوں کے بہشت سائے میں عُمر کاٹوں
کہ ساری دُنیا کے نقش باطل
بس ایک نقشِ ثبات ہیلن
سوائے ہیلن کے سب فنا ہے
کہ ہے دلیلِ حیات ہیلن!
اے میری ہیلن!
تری طلب میں ہر ایک ذلّت مجھے گوارا
میں اپنا گھر بارِ اپنا نام و نمود تجھ پر نثار کردوں
جو حکم دے وہ سوانگ بھرلوں
ہر ایک دیوار ڈھا کے تیرا وصال جیتوں
کہ ساری دنیا کے رنج و غم کے بدل پہ بھاری ہے
تیرے ہونٹوں کا ایک بوسہ
سُبک مثالِ ہوائے شامِ وصال‘ ہیلن!
ستارے پوشاک ہیں تری
اور تیرا چہرہ‘ تمام سیّارگاں کے چہروں سے بڑھ کے روشن
شعاعِ حسنِ اَزل سے خُوشتر ہیں تیرے جلوے
تُمہیں ہو میری وفا کی منزل…!
تُمہیں ہو کشتی‘ تمہیں ہو ساحل‘‘
محاورات
- آزاد کا الف
- آزاد کا سونٹا
- آزاد کا قشقہ
- آزادی بیع کرنا
- آزادی خدا کی نعمت ہے
- بیگانے برد سے آزاد کرنا
- بیگانے بردے آزاد کرتے ہیں
- پابند پھنسے آزاد ہنسے
- پرائے بردے آزاد کرنا
- قرار در کف آزادگاں نہ گیرو مال۔ نہ صبرور دل عاشق نہ آب در غربال