آزردہ کے معنی
آزردہ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ آ + زُر + دَہ }
تفصیلات
iفارسی زبان میں مصدر|آزردن| سے علامت مصدر|ن| گرا کر|ہ| لگانے سے حالیہ تمام |آزردہ| بنا۔ اردو میں بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٣٥ء میں سب رس میں مستعمل ملتا ہے۔, m["غم","ناراضگی","افسردہ خاطر","افسردہ دل","دل شکستہ","دل گرفتہ","شکستہ خاطر"]
آزُرْدَن آزُرْدَہ
اسم
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع : آزُرْدَگان[آ + زُر + دَگان]
آزردہ کے معنی
اب یاس کے پتلوں کو نہیں آس خدا سے لب آہ سے برہم دل آزردہ دعا سے (١٩٤٠ء، بیخود، کلیات، ١٠١)
"پھر کچھ آزردہ ہوتے ہوئے کہا سرکار آپ لوگ دولت والے ہو پڑھے لکھے ہو اس لیے مجھے بیوقوف بنا سکتے ہو۔" (١٩٥٤ء، شاید کہ بہار آئی، ٨)
آزردہ کے مترادف
اداس, رنجور, رنجیدہ, مغموم
اداس, افسردہ, اندوہگیں, خفا, دکھی, رنج, رنجیدہ, غمگین, محزون, مغموم, ملول, منغّض, ناخوش, ناراض
آزردہ کے جملے اور مرکبات
آزردہ خاطر
آزردہ english meaning
Afflicted (by)saddispirited; vexed (with)displeaseddissatisfied; weary (of)Annoyedannoyingdejecteddissatisfieddistressedgloomyglumirksomesorryteasingtroubleduneasy
شاعری
- لطف کیا آزردہ ہوکر آپ سے ملنے کے بیچ
ٹک تری جانب سے جب تک عذر خواہی بھی نہ ہو - آزردہ خاطروں سے کیا فائدہ سخن کا
تم حرف سر کروگے ہم گریہ سر کریں گے - یہ عمر اور عشق‘ ہے آزردہ جائے شرم
حضرت یہ باتیں پھبتی تھیں عہدِ شباب میں - رہے اس شوخ سے آزردہ ہم چندے تکلف سے
تکلف برطرف تھا ایک انداز جنوں وہ بھی - اب یاس کے پتلوں کو نہیں آس خدا سے
لب آہ سے برہم دل آزردہ دعا ہے - سہواًاکر ہوئی ہو کچھ آزردہ خاطری
بخشو مجھے کہ موت ہے نزدیک اب مری - دیر سے آزردہ ہوکر میں جو کعبے کو چلا
سنکھ نے مجھ پر کیا آوازہ بسم اللہ کا - محبت دل میں جب ہوتی ہے ، انساں کیا نہیں کرتا
شکایت کی فقط اک بات ہے آزردہ ہونا تھا - قائم ترے کوچے سے آزردہ نہ کیوں جاوے
وہ لطف کا طالب تھا یاں خشم نظر آیا - میں کہا مہترانی جی کچھ لو
مجھ سے آزردہ دل نہ اتنی ہو
محاورات
- آزردہ کرنا
- دل آزردہ ہونا
- دل آزردہ کرنا
- دل آزردہ ہونا