آلائش کے معنی
آلائش کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ آ + لا + اِش }
تفصیلات
iفارسی زبان میں مصدر |آلودن| سے حاصل مصدر مشتق ہے۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٣٥ء میں "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["آلودگی ۔ غلاظت ۔ میل کچیل","آلودن سے","انتڑیاں وغیرہ","پھوڑے کا مواد","پھوڑے کی پیپ","پھوڑے کی پیپ اور لہو","گندہ مواد","میل کچیل"]
آلودن آلائِش
اسم
اسم حاصل مصدر ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : آلائِشیں[آ + لا + اِشیں (ی مجہول)]
- جمع غیر ندائی : آلائِشوں[آ + لا + ئِشوں (و مجہول)]
آلائش کے معنی
"شکر ستار مطلق کیا کہ بدن کی آلائش گئی۔" (١٨٦٨ء، سرور، انشائے سرور، ١٦)
"بادشاہ کے سامنے آلائش صاف کر کے بھیڑیں بھی لائی جاتی ہیں۔" (١٩٢٠ء، رہنمائے قلعہ دہلی، ٣٣)
"بڑھیا کے پاس ایک گائے تھی آتے جاتے قصر شاہی میں الائش کرتی۔" (١٨٢٤ء، سیر عشرت، ١٦)
ہے کہیں ناسور خون دل کی چشم دم بہ دم نکلی ہے آلائش نئی (١٨١٣ء، پروانہ (جسونت سنگھ)، کلیات، ٣٥٠)
"نہ ان کو گناہوں کی آلائش سے پاک کرے گا۔" (١٨٩٥ء، ترجمہ قرآن، نذیر احمد، ٤٠)
"چھپا کر دینے کی صورت اس لیے بھی اچھی ہے کہ دینے والا نمائش اور شہرت طلبی کی آلایشوں سے اپنے اخلاق کو محفوظ رکھ سکے گا۔" (١٩٣٥ء، سیرۃ النبی، ٢٧٢:٥)
نہ ختنے کی ہوئی حضرت کو حاجت نہ آلائش تھی کچھ وقت ولادت (١٨٥٥ء، ریاض المسلمین، اسیر، ٢٨)
آلائش english meaning
Pollutioncontamination; filth; garbage; inconvenienceanxietyaccomplishmentfilth
شاعری
- ہے کہیں ناسور کون دل کی چشم
دم بے دم نکلی ہے آلائش نئی - جسے کچھ سمجھ بوجھ ادراک ہے
دنیا کی آلائش سوں وہ پاک ہے - نہ ختنے کی حضرت کو حاجت
نہ آلائش تھی کچھ وقت ولادت
محاورات
- آلاﺋش دنیوی میں مبتلا ہونا