آنکھ کے معنی
آنکھ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ آنْکھ (ن مغنونہ) }
تفصیلات
iسنسکرت زبان کے لفظ |آکش| سے ماخوذ ہے قدیم زمانے میں |آنکہ| اور |آنک| بھی استعمال ہوتا رہا لیکن آنکھ ہی رائج ہوا سب سے پہلے ١٥٠٣ء میں "نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(آنک سے) گھٹنوں کے دونوں طرف کے گھڑے","(آنکُر سے) پودوں میں وہ جگہیں جہاں سے نئی شاخیں پھوٹیں","(آنکنا سے) جانچ","(جمع کی حالت میں) تصور","انداز نظر","انناس کے حلقے","حق شناسی","سرو میں وہ جگہ جہاں سے کلے پُھوٹیں","مجازاً بیٹا بیٹی","محاصل سرکار"]
آکش آنْکھ
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : آنْکھیں[آں + کھیں (ی مجہول)]
- جمع استثنائی : آنْکھوں[آں + کھوں (و مجہول)]
آنکھ کے معنی
کہیں کس سے کہ ہیں تعبیر اک خواب مسرت کی یہ آنکھیں اشک ریز اپنی یہ دامن خونچکاں اپنا (١٩٢١ء، ضیائے سخن، ٦٤)
دل چرایا ہے وہ اب آنکھ ملائیں کیونکر سامنے ہوتی ہے مشکل سے گنہگار کی آنکھ (١٨٧٨ء، گلزار داغ، ١٨٤)
"حاکم کے آنکھ نہیں ہوتی کان ہوتے ہیں۔" (١٨٩٥ء، فرہنگ آصفیہ، ٢٥٣:١)
دبدبہ بھی ہے وہی طرز سخن بھی ہے وہی آنکھ بھی ہے وہی ابرو کی شکن بھی ہے وہی (١٩٦٣ء، مراثی نسیم، ١١:٣)
سنی سنائی پہ ایقان واہ کیا کہنا بغیر آنکھ کے عینی گواہ کیا کہنا (١٩٥٦ء، اختر (سجاد علی خاں)، مسدس، ٨)
صاحب کی آنکھ اب جو عروس اجل پہ ہے اپنی بھی آنکھ خالق عز و جل پہ ہے (١٩٢٥ء، جاوید (سید محمد کاظم)، مرثیہ، ١١)
دم توڑتی ہوں پیاس سے تم پر اثر نہیں کل تک جو تھی وہ آنکھ نہیں وہ نظر نہیں (١٩٦٥ء، منظور رائے پوری، مرثیہ، ٧)
"اس کے خاوند کو جواہرات کی آنکھ تھی۔" (١٩٤٤ء، افسانچے، کیفی، ١٣٦)
"میں دعا دیتا ہوں کہ خدا پٹنہ والوں کو سمجھ اور آنکھ دے۔" (١٩٢٤ء، مکتوبات شاد عظیم آبادی، ١٩١)
صحبت کا رقیبوں کی ہے ادنٰی یہ کرشمہ جو آنکھ سے فرماتے ہیں وہ دل میں نہیں ہے (١٩٣٦ء، غزل کوکب، ماہنامہ، مسافر، مراد آباد، جنوری، ٢٧)
ہشیار اسیر آنکھ ہے تجکو جو سخن میں رکھتے ہیں وہ سر پر میرے دیوان کو ادب سے (١٨٨١ء، مسیو، امیراللغات، ٢١٠:١)
"قلم جب بناویں تو نیچے کی جانب اور اوپر کے حصّے کی جانب قریب قریب آنکھ چھوڑ دینی چاہیے۔" (١٩٠٣ء، باغبان، ١٩)
لیا نہ دل مرا اک بوسے پر وہ یوں بولا ہماری آنکھ میں اتنے کا تو یہ مال نہیں (١٨٢٤ء، مصحفی، دیوان (ق)، ١٧٨)
"مجھے دونوں آنکھیں برابر ہیں جو بڑی کو دوں گی وہی چھوٹی کو دوں گی۔" (١٨٩٥ء، فرہنگ آصفیہ، ١٥٣:١)
وہ تیغ تیز آبینہ پیکر پری نژاد قبضے کی آنکھ، فون کی سورت پہ حق کا صاد (١٩٦٢ء، ٦٢ء کے چند جدید مرثیے، ٧٨)
وہ دائروں کی آنکھ نہیں وہ نظر نہیں فعلوں کا ہے یہ حال کہ اک حال پر نہیں (١٩١٢ء، شمیم، ریاض شمیم، ١٣١:٧)
"میری داہنی آنکھ میں پانی اتر آیا ہے۔" (١٩١٣ء، مکاتیب حالی، ٧٧)
"خوردبین کی آنکھ کے نیچے رکھ کر دیکھ سکتی ہے۔" (١٩٦٩ء، نفسیات اور ہماری زندگی، ١٧)
"مسافر کے لیے لازم ہے کہ سفر کے آداب سے واقف ہو، ایک خاص شریفانہ رفتار سے تجاوز نہ کرے، سرخ آنکھ نظر آئے تو رک جائے، سبز آنکھ نمودار ہو تو چل پڑے۔" (١٩٧٥ء، وزیر آغا، ماہنامہ، الشجاع، سالنامہ، کراچی، ٣٩)
"جنگل میں ایک درخت ہوتا ہے جس کو آنکھ یا آک کہتے ہیں، اس کے پھول بالکل آنکھوں کی شکل کے ہوتے ہیں۔" (١٩٥٥ء، حسن نظامی، پھول، ٢٤)
آنکھ کے جملے اور مرکبات
آنکھ مچولی, آنکھ کی پتلی, آنکھ کا تارا, آنکھ کا پردہ, آنکھ میں, آنکھ کا تل, آنکھ کا جالا, آنکھ کا حجاب, آنکھ کا حلقہ, آنکھ کا ڈورا, آنکھ کا غبار, آنکھ کا کیچڑ, آنکھ کا لحاظ, آنکھ کا نشہ, آنکھ کی گردش, آنکھ کی مروت
آنکھ english meaning
Eyelooksightview
شاعری
- اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھو
آ سینے کو لپکا ہے پریشاں نظری کا - اشکِ تر‘ قطرۂ خوں‘ لختِ جگر‘ پارہ دل
ایک سے ایک عدد آنکھ سے بہ کر نکلا - وہ تو نہیں کہ اشک تھمے ہی نہ آنکھ سے
نکلے ہے کوئی لخت دل اب سو جلا ہوا - ملانا آنکھ کا ہر دم فریب تھا دیکھا
پھر ایک دم میں وہ بے دید آشنا نہ رہا - آنکھ اس کی نہیں آئینہ کے سامنے ہوتی
حیرت زدہ ہوں یار کی میں شرم و حیا کا - آنکھ اس سے نہیں اٹھنے کی صاحب نظروں کی
جس خاک پہ ہوگا اثر اُس کی کفِ پا کا - آنکھ کے لڑتے تری آشوب سا برپا ہوا
زلف کے درہم ہوئے اک جمع برہم ہوگیا - رہتا نہیں ہے آنکھ سے آنسو ترے لیے
دیکھی جو اچھی شے تو یہ لڑکا مچل پڑا - کبھو جو آنکھ سے چلتے ہیں آنسو
تو پھر جاتا ہے پانی سب زمین پر - مرگئے لیکن نہ دیکھا تو نے اودھر آنکھ اُٹھا
آہ کیا کیا لوگ ظالم تیرے بیماروں میں تھے
محاورات
- کوئی آنکھوں کا اندھا کوئی عقل کا اندھا
- (آنکھوں میں) لہو اترنا
- (سر) آنکھوں کے بل چل کرآنا (یا جانا)
- (سے) آنکھ سیدھی ہونا
- آپ کا شکوہ میرے سر آنکھوں پر
- آپ کی (خجالت) (شرمندگی) خفت میرے سر آنکھوں پر
- آپ کی شکایت میرے سرآنکھوں پر
- آسمان کا آنکھیں نکالنا
- آگے جاتے گھٹنے ٹوٹیں پیچھے دیکھتے آنکھیں پھوٹیں
- آنتا تیتا دانتا نون پیٹ بھرن کو تین ہی کون آنکھیں پانی کانے تیل۔ کہے گھاگ بیداﺋﮯ کھیل