ابتذال

{ اِب + تِذال }

تفصیلات

iعربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب افتعال سے مصدر ہے۔ اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ ١٨٨٨ء کو "ابن الوقت" میں مستعمل ملتا ہے۔

["بذل "," اِبْتِذال"]

اسم

اسم حاصل مصدر

ابتذال کے معنی

١ - اخلاقی پستی۔ کمینہ پن۔

"ایکٹری کا پیشہ ابتذال کی انتہائی منزل پر پہنچ گیا"۔ (١٩٢٤ء، ناٹک ساگر، ٣٥٢)

٢ - عمومیت یا کثرت استعمال جس سے اہمیت گھٹ جائے۔

"رفتہ رفتہ اس (قصیدے) کے ابتذال کی یہ نوعیت پہنچی کہ ادنٰی ادنٰی بنیوں تک کی شان میں کہے جانے لگے"۔ (١٩٢٧ء، شاد، فکر بلیغ، ١٠٤)

٣ - نظم و نثر کا عامیانہ رکیک انداز، فرسودہ اور پامال مضامین و الفاظ کا استعمال۔

"ابتذال سے بچنے کے لیے ضرور ہے کہ جب تک متقدمین کے کلام پر عبور نہ ہو شعر نہ کہے"۔ (١٩٣٣ء، نظم طباطبائی، مقدمہ)

انگلش

["vileness","meanness; servitude; carelessness in preserving anything"]