اجنبی کے معنی
اجنبی کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ اَج + نَبی }
تفصیلات
١ - جس سے جان پہچان نہ ہو، بیگانہ، ناواقف۔, m["(فقہ) ایسا شخص جس سے از روے شرع نکاح جائز ہو","(مجازاً) نامانوس","جس سے جان پہچان نہ ہو","غیر ذی رحم","غیر مروت","غیر ملکی","نا محرم","نا واقف","ناواقف یا پردیسی آدمی"]
جنب اَجْنَب اَجْنَبی
اسم
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : اَجْنَبْیوں[اَج + نَب + یوں (و مجہول)]
اجنبی کے معنی
تکتا ہوں سوئے پردۂ در بن کے اجنبی شوق نظارہ آنکھوں میں پنہاں کیے ہوئے (١٩٥١ء، آرزو، ساز حیات، ٤٧)
"کسی کو گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ یہ اجنبی تاجر کوٹھیاں بناتے بناتے قلعے تعمیر کرنے لگیں گے۔" (١٩٣٦ء، خطبات عبدالحق، ٢٩)
"ہندوستانی ان باتوں کو مدت سے چھوڑ چکے، اب ان کے لیے یہ صفات اجنبی ہیں۔" (١٩٢٨ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، ٩:١٣، ٩)
"علما میں اس پر نزاع ہوئی کہ عورتیں اپنے ہاتھ منہ اور پاؤں اجنبیوں کے سامنے کھول سکتی ہیں یا نہیں۔" (١٩٠٤ء، مقالات شبلی، ١٠٥:١)
اجنبی کے مترادف
بیگانہ, عجیب, پردیسی, غریب, مسافر
انجان, اواپرا, بدیشی, بیگانہ, پردیسی, جَنَبَ, عجیب, غریب, غیر, مسافر, ناآشنا, نامانوس, ناواقف, نیا
اجنبی english meaning
a foreignera starngera strangeran alienForeignnew
شاعری
- تیور تھے بے رُخی کے انداز دوستی کے
وہ اجنبی تھا لیکن لگتا تھا آشنا سا - کہاں گئے وہ شناسا‘ وہ اجنبی چہرے
اُجاڑ سی نظر آتی ہے ہر گلی اب تو - گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا‘ مجھے تو حیران کرگیا وہ - پہچان لے مجھے کہ میں تیرا لباس ہوں
اے جان‘ اجنبی ہیں تیرے پیرہن تمام - تمام شب مجھے تکتے رہے در و دیوار
اک اجنبی کی طرح میں خود اپنے گھر میں رہا - سفر نہ پوچھ کہ کیسا تھا دشتِ غربت کا
ہر اجنبی میں مجھے آشنا دکھائی دیا - وہ اجنبی تھا تو کیوں مجھ سے پھیر کر آنکھیں
گزر گیا کسی دیرینہ آشنا کی طرح - … کئی سال ہوگئے
خوابوں کی دیکھ بھال میں آنکھیں اُجڑ گئیں
تنہائیوں کی دُھوپ نے چہرے جلادیئے
لفظوں کے جوڑنے میں عبارت بکھر چلی
آئینے ڈھونڈنے میں کئی عکس کھوگئے
آئے نہ پھر وہ لوٹ کے‘ اِک بار جو گئے
ہر رہگزر میں بِھیڑ تھی لوگوں کی اِس قدر
اِک اجنبی سے شخص کے مانوس خدّوخال
ہاتھوں سے گر کے ٹوٹے ہُوئے آئنہ مثال
جیسے تمام چہروں میں تقسیم ہوگئے
اِک کہکشاں میں لاکھ ستارے سمو گئے
وہ دن‘ وہ رُت ‘ وہ وقت ‘ وہ موسم‘ وہ سرخُوشی
اے گردشِ حیات‘ اے رفتارِ ماہ و سال!
کیا جمع اس زمیں پہ نہیں ہوں گے پھر کبھی؟
جو ہم سَفر فراق کی دلدل میں کھوگئے
پتّے ج گر کے پیڑ سے‘ رستوں کے ہوگئے
کیا پھر کبھی نہ لوٹ کے آئے گی وہ بہار!
کیا پھر کبھی نہ آنکھ میں اُترے گی وہ دھنک!
جس کے وَفُورِ رنگ سے چَھلکی ہُوئی ہَوا
کرتی ہے آج تک
اِک زُلف میں سَجے ہُوئے پُھولوں کا انتظار!
لمحے‘ زمانِ ہجر کے ‘ پھیلے کچھ اِس طرح
ریگِ روانِ دشت کی تمثال ہوگئے
اس دشتِ پُرسراب میں بھٹکے ہیں اس قدر
نقشِ قدم تھے جتنے بھی‘ پامال ہوگئے
اب تو کہیں پہ ختم ہو رستہ گُمان کا!
شیشے میں دل کے سارے یقیں‘ بال ہوگئے
جس واقعے نے آنکھ سے چھینی تھی میری نیند
اُس واقعے کو اب تو کئی سال ہوگئے!! - ہَوا بُرد
مِرے ہم سَفر
مِرے جسم و جاں کے ہر ایک رشتے سے معتبر‘ مرے ہم سَفر
تجھے یاد ہیں! تجھے یاد ہیں!
وہ جو قربتوں کے سُرور میں
تری آرزو کے حصار میں
مِری خواہشوں کے وفور میں
کئی ذائقے تھے گُھلے ہُوئے
درِ گلستاں سے بہار تک
وہ جو راستے تھے‘ کُھلے ہُوئے!
سرِ لوحِ جاں‘
کسی اجنبی سی زبان کے
وہ جو خُوشنما سے حروف تھے!
وہ جو سرخوشی کا غبار سا تھا چہار سُو
جہاں ایک دُوجے کے رُوبرو
ہمیں اپنی رُوحوں میں پھیلتی کسی نغمگی کی خبر ملی
کِسی روشنی کی نظر ملی‘
ہمیں روشنی کی نظر ملی تو جو ریزہ ریزہ سے عکس تھے
وہ بہم ہُوئے
وہ بہم ہُوئے تو پتہ چلا
کہ جو آگ سی ہے شرر فشاں مِری خاک میں
اُسی آگ کا
کوئی اَن بُجھا سا نشان ہے‘ تری خاک میں!
اسی خاکداں میں وہ خواب ہے
جسے شکل دینے کے واسطے
یہ جو شش جہات کا کھیل ہے یہ رواں ہُوا
اسی روشنی سے ’’مکاں‘‘ بنا‘ اسی روشنی سے ’’زماں‘‘ ہُوا
یہ جو ہر گُماں کا یقین ہے!
وہ جو ہر یقیں کا گمان تھا!
اسی داستاں کا بیان تھا! - ہم ایک دُوجے سے ملتے تو کس طرح ملتے!
زمیں پہ آگ تھی تارے لہُو میں لتھڑے تھے
ہَوا کے ہاتھ میں خنجر تھا اور پُھولوں کی
پھٹی پھٹی ہُوئی آنکھوں میں ایک دہشت تھی
ارادے ٹوٹتے جاتے تھے اور اُمیدیں
حصارِ دشت میں ‘ بکھری تھیں اِس طرح‘ جیسے
نشان‘ بھٹکے ہُوئے قافلوں کے رہ جائیں
ہمارے پاس سے لمحے گَزرتے جاتے تھے
کبھی یقین کی صورت ‘ کبھی گُماں کی طرح
اُبھرتا‘ ڈوبتا جاتا تھا وسوسوں میں دِل
ہوائے تند میں کشتی کے بادباں کی طرح
عجیب خوف کا منظر ہمارے دھیان میں تھا
سروں پہ دُھوپ تھی اور مہر سائبان میں تھا
چراغ بُجھتے تھے لیکن دُھواں نہ دیتے تھے
نہیں تھی رات مگر رَت جگا مکان میں تھا!
حروف بھیگے ہُوئے کاغذوں پہ پھیلے تھے
تھا اپنا ذکر‘ مگر اجنبی زبان میں تھا
نظر پہ دُھند کا پہرا تھا اور آئینہ
کسی کے عکسِ فسوں ساز کے گُمان میں تھا
ہم ایک راہ پہ چلتے تو کس طرح چلتے!
تری زمیں کسی اور ہی مدار میں تھی
مِرا ستارا کسی اور آسمان میں تھا
ہم ایک دُوجے سے ملتے تو کس طرح ملتے!
سَمے کا تیز سمندر جو درمیان میں تھا
محاورات
- اجنبی مرد بدکار عورت سے بہتر ہوتا ہے
- اجنبیت پائی جانا