اشارت کے معنی
اشارت کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ اِشا + رَت }
تفصیلات
iعربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب افعال المعتل اجوف واوی سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔, m["خصوصاً معشوقانہ ناز و انداز کے چشم و ابرو کی محبت آمیز حرکت","دیکھیئے: اشارہ جو اس کی تخفیف اور زیادہ مستعمل ہے"]
شور اِشارَت
اسم
اسم مجرد ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : اِشارَتیں[اِشا + رَتیں (ی مجہول)]
- جمع غیر ندائی : اِشارَتوں[اِشا + رَتوں (و مجہول)]
اشارت کے معنی
١ - اشارہ، خصوصاً معشوقانہ ناز و انداز کے چشم و ابرو کی محبت آمیز حرکت، غمزہ، کرشمہ۔
بلائے جاں ہے غالب اس کی ہر بات عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا رجوع کریں: (١٨٦٩ء، غالب، دیوان، ١٥٨)
اشارت english meaning
insinuationhintimprudentincautious
شاعری
- مرنے میں بند زباں ہونا اشارت ہے ندیم
یعنی ہے دور کا درپیش سفر مت پوچھو - سوال میں نے جو انجام زندگی سے کیا
قدِ خمیدہ نے سُوے زمیں اشارت کی - نگاہ مست سے جب چشم نے اس کی اشارت کی
حلاوت مئے کی اور بنیاد مے خانہ کی غارت کی - سحرگہ میں نے پوچھا گل سے حالِ زار بلبل کا
پڑے تھے باغ میں یک مشت پر اُودھر اشارت کی - روح کا صوفی کیا مست ہو کر رقص او
بات جہتک حال تھے کیتا اشارت کا داب - نہ بصارت نہ اشارت نہ خجالت نہ حیا
تجھ میں تو دیکھنے کو دیدہ تر کچھ بھی نہیں - زباں ہے جس کے اشارت سے وہ پکاوے ہے
جو گونگا ہے وہ کھڑا فارسی بگھارے ہے - اگر اشارت ابرو کرے وو ماہ تمام
ہلال بزم میں ہو چرخ زن بجاے قدح - چھیڑے گالی دے اشارت کر چشمک مارے
عشوہ وغمزہ و انداز بھلا دے سارے - اشارت سے چہک جانے میں تئیں کرتی کمی ہرگز
غضب کرتیں اگر رکھتیں زبان بول چال آنکھیں