اضطراب

{ اِض + طِراب }

تفصیلات

iعربی زبان سے اسم مشتق ہے ثلاثی مزید فیہ کے باب |افتعال| سے مصدر ہے۔

["ضرب "," اِضْطِراب"]

اسم

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )

اضطراب کے معنی

١ - بے چینی، بے قراری، اطمینان کی ضد۔

"چونکہ وہ ایک شریف خاندان سے تھی اس لیے مسلمانوں میں بڑا اضطراب پیدا ہوا۔" (١٩١٤ء، سیرۃ النبیۖ، ١٣٥:٢)

٢ - تشویش، رنج و ملال۔

"مرزا داغ کو کمال پریشانی اور اضطراب ہوا اور اسی سراسیمگی میں یہ حسرت انگیز مطلع ان کی زبان پر آیا۔" (١٩١٠ء، مکاتیب امیر (مقدمہ)، ٢٦)

٣ - حرکت، سکون کی ضد۔

"وہ اضطراب اور حرکت جو ہر کائنات کا اصلی میلان قرار دیتا ہے۔" (١٩٣٤ء، تاریخ فلسفۂ جدید، ٦٣٦:٢)

٤ - شباب کاری، بدحواسی، گھبراہٹ۔

"اضطراب میں دوپٹہ گیا، متجردہ نے فوراً ہاتھوں سے چہرے کو چھپا لیا۔" (١٩٠٤ء، مقالات شبلی، ١١٢)

٥ - الٹ پلٹ ہو جانے کی کیفیت، انقلاب، بدنظمی، ابتری۔

"اور ریاست میں انقلاب آ گیا۔" (١٨٤٧ء، تاریخ ابوالفداء (ترجمہ)، ٣٣:٢)

٦ - [ حدیث ] سند یا متن میں راویوں کا اختلاف یا کسی درجے میں اشتباہ، حدیث کا مضطرب ہونا۔

"انھوں نے اس اسناد میں اضطراب کیا۔" (١٩٥٦ء، مشکواۃ شریف (ترجمہ)، ٢٢٢:١)

٧ - تردد، تذبذب (جو کسی بات کی صحت میں شک پڑنے کی وجہ سے ہو)۔

"اپنے مجتہدین اور علما کے اطراب پر حیرت کر کے جہاں تک اس سے ہوتا ہے ان کی بات بناتا ہے۔" (١٨٧١ء، آیات بینات، ١٢٥:١/١)

مترادف

تشویش, خلفشار, قلق, جزع, جلدی, کرب, سنسنی, کسمساہٹ, تذبذب, کلفت

انگلش

["agitation","perturbation","restlessness","distraction","anxiety","anguish","trouble","chagrin; precipitation; flurry"]