اضطرار کے معنی
اضطرار کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ اِض + طِرار }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٧٧٢ء کو "انتباہ الطالبین" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بے اختیاری","بے بسی","بے بسی (جس کا دور ہونا اپنے قابو اور اختیار میں نہ ہو)","بے چینی","بے قراری","بے کلی","جلد بازی","شتاب کاری","عدمِ قرار","وہ تڑپ اور رقت قلب جو ہر طرف سے مایوسی کی حالت میں انابت رجوع قلب اور خضوع و خشوع کا باعث ہوتی ہے"]
ضرر اِضْطِرار
اسم
اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
اضطرار کے معنی
"اضطراب کی حالت میں کلر وہ اور حرام چیزیں بھی حلال سمجھ لی جاتی ہیں۔" (١٩١٢ء، حالی، مقالات، ٣٠:٢)
"جس طرح اضطرار کی حالت میں کوئی شخص خدا سے دعا مانگتا ہے۔" (١٨١٠ء، اخوان الصفا، ٧١)
"میں مس کے انتظار میں اپنے دل کی اضطرار میں راہ تکتی رہی۔" (١٩٠١ء، راقم، عقد ثریا، ١٥٦)
"اب تو میں آپ کے قابو ہی میں ہوں کیا مقام اضطرار ہے۔" (١٨٤٥ء، نغمۂ عندلیب، ١٦١)
اضطرار english meaning
violencecompulsionconstraint; agitationperturbation; despairthe last extremityagitationcoercionconstraintforceInvoluntarinessperturbationrestraint
شاعری
- تڑپا شب فراق سے تا صبح روز حشر
اللہ رے اضطرار ترے بیقدار کا - تڑپا شب فراق سے تا صبح روز حشر
اللہ رے اضطرار ترے بیقرار کا - نے دے اضطرار نے دے ہم کو
دیون ہو تو کچھ اضحاک دے ہم کو