اٹک[1] کے معنی
اٹک[1] کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ اَٹَک }
تفصیلات
i|اٹکنا| مصدر سے حاصل مصدر ہے۔ اردو میں ١٦٥٧ء کو "گلشن عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔
[""]
اسم
اسم حاصل مصدر ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : اَٹَکیں[اَٹَکیں (ی مجہول)]
- جمع غیر ندائی : اَٹَکوں[اَٹَکوں (و مجہول)]
اٹک[1] کے معنی
١ - رکاوٹ، مزاحمت، اٹکاوا۔
گر کام تیرا وہم کے بھٹکاو پر نہیں تیرے لیے اٹک کسی اٹکاو پر نہیں (١٨٤٩ء، کلیات ظفر، ٧٧:٢)
٢ - تامل، جھجھک
تری مڑک نے پنپنے دیا نہ تجھ کو حیف تری اٹک سے تری ناو جا پڑی منجدھار (١٩١١ء، کلیات اسماعیل، ١٧٨)
٣ - تعلق، وابستگی، الجھاوا۔
اٹک دل کی ہے ہے بری ہے بری جگر پر ہے گویا کہ زہری چھری (١٧٣٩ء، کلیات سراج، ٧٩)
اٹک[1] کے مترادف
آڑ, رکاوٹ, اڑچن
اٹک[1] english meaning
["obstacle","impediment","hindrance","bar","obstruction; anything to prevent","prevention","stoppage","check","restraint","prohibition; interruption; arrest; challenge (of a sentry); fastening (of a tent); tether; abstention; hesitation","doubt","entanglement"]