بانکپن کے معنی
بانکپن کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ بانْک (ن غنہ) + پَن }
تفصیلات
iسنسکرت میں اصل لفظ |بنک| سے ماخوذ اسم |بانک| کے ساتھ ہندی زبان سے ماخوذ لاحقۂ کیفیت |پن| لگنے سے |بانکپن| بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧١٨ء میں |دیوان آبرو| میں مستعمل ملتا ہے۔, m["البیلا پن","چنچل پن","چھبیلا پن","خم داری","خود نمائی","خوش وضعی","ناز و انداز","نمود و نمائش","ٹیڑھا پن"]
بنک بانک بانْکْپَن
اسم
اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
بانکپن کے معنی
ما وضعداروں کی طینت ہے وہ چلن نہ گیا عدو سے جھک کے ملی پھر بھی بانکپن نہ گیا (١٩٦٥ء، منظور رائے پوری، مرثیہ، ١٠)
بل ابروؤں پہ ڈال کے دل ہم سے مانگیے اک بانکپن کی شان بھی ہو التجا کے ساتھ (١٩١٩ء، درشہوار، ٨٥)
تصویر یگانہ آپ بول اٹھے گی ہاں ایسے ہی منہ پہ بانکپن کھپتا ہے (١٩٣٣ء، ترانہ، یاس، ١٣٩)
یہ بانکپن یہ اداءیں یہ جامہ زیبی حسن یہ سوز و ساز محبت یہ دل فریبی حسن (١٩٢٩ء، مطلع انوار، ٢٧)
فتنہ عالم ہے تیرا بانکپن شوخی و شنگی ہے تیرا خاص فن (١٩١١ء، کلیات اسماعیل، ٥٧)
بانکپن english meaning
crookednesscurvature; foppishnesscoxcombrydandyismsmartnessgaynesselegance; skittishnesswantonness; disorderly conductrakishnessdebaucherybarkcutenessfoppishnessgaiety , wantonnesspeel skinrind
شاعری
- دیکھ کر تیور نکل جائے گا باہر آپ سے
کیا دکھاؤں اس کو میں اس بانکپن میں آئنہ - پٹیتوں نے چھوڑا ہے بانے کتئیں
نظر کر بھواں کا ترے بانکپن - ٹیڑھے ترچھے بہت سے دیکھے ہیں
بس جی بس ہم سے بانکپن نہ کرو - جو وضعداروں کی طینت ہے وہ چلن نہ گیا
عدو سے جھک کے ملی پھر بھی بانکپن نہ گیا - دکھا تی ہے یہ تن کر بانکپن اپنا نہالوں سے
جوانی بن کے ہوتی ہے عیاں پھولوں کے گالوں سے - ایسا تھا بانسری کے بجیا کا پانکپن
کیا کیا کہوں میں کشن کنھیا کا بانکپن - نسیم اب تک وہی خم دم ہیں پیری میں جوانی کے
کسی دن بھی نہ ہم نے کم تمہارا بانکپن دیکھا - اکڑتے ہیں کیا کیا براتے ہیں کیا کیا
وہ آئینہ میں بانکپن دیکھتے ہیں - تلوار کو جو کھینچ دکھاتے ہو بانکپن
بیٹھے رہو میں ایسی اداوں سے ڈر چکا - آ خدا کے واسطے اس بانکپن سے درگزر
کل تو میں نے یوں کہا دامان گہ کر یار کا