بخشی کے معنی
بخشی کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ بَخ + شی }
تفصیلات
iفارسی سے ماخوذ اسم |بخش| کے ساتھ |ی| بطور لاحقۂ صفت لگانے سے |بخشی| بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٩٤ء، کو "جنگ نامہ دو جوڑا" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["ایک افسر جو تقسیم تنخواہ کا حساب رکھتا تھا","ایک لقب جو بہت لوگ اپنے نام کے ساتھ استعمال کرتے ہیں غالباً یہ لوگ پرانے زمانے کے بخشیوں کی اولاد ہیں","پے ماسٹر","تنخواہ بانٹنے والا","تنخواہ دہندہ","چوکی داروں کی تنخواہ بانٹنے والا","فوج والوں کو تنخواہ تقسیم کرنے والا","فوج کا سپہ سالار کیوں کہ تنخواہ تقسیم کرنا بھی اس کے ذمہ ہوتا تھا","قاسم تنخواہ","مکانات کے کرائے وصول کرنے والا"]
بَخْش بَخْشی
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
بخشی کے معنی
وہ بخشی و دستور وہ دیوان کہاں ہیں خدام ادب اور وہ دربان کہاں ہیں (١٩١١ء، کلیات اسماعیل، ١٣٦)
"وہ اپنے کام میں |لگا توس| یا خبیش سالار، اور. بخشوں سے امداد لیتے تھے۔" (١٩٣٩ء، تاریخ سلطنت روما، ١١٧)
بخشی کے مترادف
قاسم, جرنیل
پہدار, خزانچی
بخشی کے جملے اور مرکبات
بخشی الممالک, بخشی خانہ, بخشی دیوان, بخشی فوج, بخشی گری
بخشی english meaning
a commander-in-chiefa fence or hedgea pay mastera stockudecommander in chief
شاعری
- حرف نہیں جاں بخشی میں اُس کی خرابی اپنی قسمت کی
ہم سے جو پہلے کہ بھیجا سو مرنے کا پیغام کیا - جلا رہا ہوں اسی سے نفس نفس میں چراغ
تری نطر نے جو بخشی تھی آنچ ہلکی سی - بشر کو تیں نے بخشی سرفرازی
سبن پر کرنے لا گا ترکتازی - غیر سوں خالی کیا ہوں دل کوں اپنے جیوں جاب
تجھ نگہ نے جب سوں بخشی خانہ بردوشی مجھے - خدا کرے یہ مبارک ہو ایسی عید غدیر
یہ خانہ زاد ترا بخشی الممالک ہو - ہے مجھ کو احتمال کہ یہ حرف ترک ہوں
تیری زیادہ بخشی سے اے لجہ نوال - گنجے سر پر نہیں زاہد کے کچھ اک موئے سفید
یہ خدا نے انھیں بخشی کلہ میشی ہے - روح بخشی ہے کام تُجھ لب کا
دمِ عیسیٰ ہے نام تُجھ لب کا - لپٹ وہ زلف کی جاں بخشی اور وہ پیاری رات
بسر ہوئی کبھی ایسی بھی ساری ساری رات - کیا قتل اور جان بخشی بھی کی
حسن اُس نے اھساں دوبارہ کیا
محاورات
- حساب جو جو بخشیش سو سو
- حساب جو جو بخشیش سوسو
- حساب کوڑی کا بخشیش لاکھوں کی
- دور کا بہ گھوڑا بخشی کا داماد
- مرا بہ سادہ دلیہائے من تواں بخشید کہ جرم کرقدہ ام و چشم آفریں وارم