بچھا کے معنی
بچھا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ بِچھ + چھا }
تفصیلات
iسنسکرت زبان سے ماخوذ اردو مصدر |بچھنا| کا فعل ماضی |بچھا| اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٤٦ء کو "دیوان آتش" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بچھانا کا","بچھنا کی","بچہ گاؤ","دبا ہوا","درمیانی فاصلہ یا جگہ","گائے کا نر بچہ"]
بِچھْنا بِچھّا
اسم
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جنسِ مخالف : بِچھّی[بِچھ + چھی]
- واحد غیر ندائی : بِچھّے[بِچھ + چھے]
- جمع : بِچھّے[بِچھ + چھے]
بچھا کے معنی
١ - فرش کیا ہوا، زمین پر کھلایا پھیلا ہوا۔
شیر سے خالی نہیں رہتا نیستاں زینہار بوریا لے فقر بچھا چھوڑ جایا چاہیے (١٨٤٦ء، آتش، دیوان، ٢٤٥:٢)
بچھا english meaning
a peremptory orderAbjectCalfcontractedFoolishnarrowNigglingsmallSteerstraitStupidtight
شاعری
- اتنا کہا تھا فرش تری رہ کے ہم ہوں کاش
سو تو نے مار مار کے آکر بچھا دیا - بچھا دیا تھا گلابوں کے ساتھ اپنا وجود!
وہ سو کے اٹھے تو خوابوں کی راکھ اٹھاؤں گی - چہرہ بچھا رکھا ہے‘ دل کون دیکھتا ہے
اندر سے ٹوٹتا ہوں‘ کہتا نہیں زباں سے - جو بچھا سکوں ترے واسطے، جو سجاسکیں ترے راستے،
مری دسترس میں ستارے رکھ، مری مٹھیوں کو گلاب دے - تمھی نے پاؤں نہ رکھا وگرنہ وصل کی شب
زمیں پہ ہم نے ستارے بچھا کے رکھے تھے! - بس ایک رات میں سر سبز یہ زمین ہوئی
مرے خدا نے کہاں تک بچھا دیا مجھ کو - تونگر کی طرح درویش کیا مسند بچھا بیٹھے
خدا کا جس کو تکیہ ہو وہ کیا تکیہ لگا بیٹھے - شیر سے کالی نہیں رہتا نیستاں زینہار
نورہاے فقر بچھا چھوڑ جایا چاہیے - ہوگیا صیاد بھی عاشق مزاج
خود بچھا جاتا ہے اپنے دام پر - زلف کو کھول کے کوٹھے پہ نہ چڑھ شام کو تو
جانور لیں ہیں بسیرا نہ بچھا دام کو تو
محاورات
- آنکھیں بچھا دینا بچھانا
- آنکھیں بچھا دینا بچھنا
- آنکھیں بچھانا
- آنکھیں تلووں کے نیچے بچھانا
- آنکھیں قدموں تلے (کے نیچے) بچھانا
- اوڑھنا بچھانا بنالینا
- اوڑھوں (کہ) بچھاؤں
- اوڑھوں کہ بچھاؤں
- بچھا جانا
- بسترا بچھانا۔ جمانا۔ کرنا یا لگانا