تازیانہ کے معنی
تازیانہ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ تا + زِیا + نَہ }
تفصیلات
iفارسی زبان سے اسم جامد ہے۔ اردو میں فارسی سے آیا۔ سب سے پہلے ١٨٧٨ء کو "گلزار داغ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(قانون) بیت جس سے ملزموں کو سزا دی جائے","(قانون) وہ بیت جس سے ملزموں کو سزا دی جائے","قمچی (جڑنا۔ کھانا۔ لگانا۔ لگنا۔ مارنا کے ساتھ)"]
اسم
اسم آلہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- واحد غیر ندائی : تازِیانے[تا + زِیا + نے]
- جمع : تازِیانے[تا + زِیا + نے]
- جمع غیر ندائی : تازِیانوں[تا + زِیا + نوں (و مجہول)]
تازیانہ کے معنی
١ - چابک، ہنٹر، قمچی، کوڑا؛ تنبیہہ۔
"سبق یاد نہ کرنے یا شرارت کرنے پر بجائے سزائے تازیانہ کے سزائے جرمانہ دی جاتی۔" (١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ١٩٣:٣)
٢ - وہ بید جس سے ملزموں کو سزا دی جائے۔
کچھ سہم کے نہیب سے تھرائے مثل بید لچکے جو مدعی پہ ترا تازیانہ آج (١٨٧٨ء، گلزار داغ،)
تازیانہ کے مترادف
چابک
جلدہ, چابک, سوط, شلاق, قمچی, وقام, کوڑا, ہنٹر
تازیانہ english meaning
a whipto be offended
شاعری
- جھکی ادھر پلک کہ ادھر وہ روانہ ہے
آواز پاے مور اسے تازیانہ ہے - خیال قد بالا میں اسے برچھوں اڑاتا ہوں
سمند فکر کو مضمون گیسو تازیانہ ہے - دیکھے کبھی جوراہ میں عکس لجام کو
ہو تازیانہ توسن چابک خرام کو - صدمے اوٹھا رہا ہوں وہ نازک دماغ ہوں
کرتا ہوں موج نکہت گل تازیانہ فرض - میں سوچتا ہوں کہاں نعرہ سیاسی میں
جو تازیانہ ہمت تری لتاڑ میں ہے - اپنا سمند عمر جما جم کے اڑ گیا
شاید ہمارا تار نفس تازیانہ تھا - کہوں شائستگی اس بادیہ پیما کی میں کیا
تازیانہ ہے بکار اس کو نہ درکار عناں - آنکھوں نے کہا یہ لیہو سے کہ اپنا خراج
دل سے نہ لو تو آبیانہ ہے،کیا کم تازیانہ ہے
محاورات
- ایک اور تازیانہ ہونا
- تازیانہ لگانا یا (مارنا)
- تازیانہ مارنا یا لگانا
- سمند ناز کو اک اور تازیانہ ہوا
- سمند ناز کو تازیانہ ہونا