تقاضا

{ تَقا + ضا }

تفصیلات

iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٧٧٤ء کو "انتباہ الطالبین" میں مستعمل ملتا ہے۔

["قضی "," تَقاضا"]

اسم

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )

اقسام اسم

  • واحد غیر ندائی : تَقاضے[تَقا + ضے]
  • جمع : تَقاضے[تَقا + ضے]
  • جمع غیر ندائی : تَقاضوں[تَقا + ضوں (و مجہول)]

تقاضا کے معنی

١ - خواہش، اقتضا، مانگ، طلب، منشا، درخواست۔

"دن بھر تھکا دینے والے دماغی و جسمانی مصروفیت کا تقاضا یہ تھا کہ . آنکھ بند کر کے لیٹ جانا۔" (١٩٢٤ء، مذاکرات نیاز، ٣)

٢ - مطالبہ، دعویٰ۔

 فلک سے ہم کو عیش رفتہ کا کیا کیا تقاضا ہے متاعِ بُردہ کو سمجھے ہوئے قرض رہزن کا (١٨٦٩ء، دیوانِ غالب، ٦٤)

٣ - ضورت، مطالبہ۔

"ریل کی سڑکوں کے بنانے کا جو تقاضا ہوتا ہے اس کی وہ فرمانبرداری کرتا ہے۔" (١٩٠٧ء، کرزن، نامہ، ١٣٧)

٤ - طبعی رحجان، خواہش و عمر وغیرہ کے مختلف مدارج سے پیدا ہو، چاہنا۔

"عمر کا تقاضا ہے جو اس کا دل چاہے کر لینے دو۔" (١٩٠١ء، حیاتِ جاوید، ٣٢)

٥ - کسی کام کے لیے بار بار کہنا، طلب کرنا۔

"مدینہ میں ایک یہودی رہتا تھا جس سے میں قرض لیا کرتا تھا . بہار آئی تو یہودی نے تقاضا شروع کیا۔" (١٩١٤ء، سیرۃ النبیۖ، ٢٩٧:٢)

٦ - تاکید، اصرار۔

"باہر سے اسلامی (بیگم) کی روانگی کا تقاضا شروع ہوا۔" (١٩١٨ء، انگھوٹھی کا راز، ٤٠)

مرکبات

تقاضائے سن

انگلش

["Demanding or exacting payment (of a debt","dunning; pressing the settlement of a claim; demand","requisition","claim; urgency","importunity"]