توکل کے معنی
توکل کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ تَوَک + کَل }بھروسہ کرنا
تفصیلات
iعربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب تفعل سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["سپرد کرنا","تسلیم و رضا (کرنا۔ ہونا کے ساتھ)","خدا پر بھروسہ کرنا","سب کچھ چھوڑ کر خدا کی طرف توجہ کرنا"],
وکل تَوَکَّل
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد ), اسم
اقسام اسم
- لڑکا
توکل کے معنی
"آپ ذرا صبر کریں، خدا پر توکل رکھیں وہی بگڑی کا بنانے والا ہے۔" (١٩١٤ء، راج دلاری، ٨٠)
"میں نے اس کانٹے کو پانوں سے نہ نکالا کہ توکل ٹوٹ جائے گا۔" (١٩٢٤ء، تذکرۃ الاولیا، ٣٥٦)
"مدت سے وہ دہلی میں توکل اور تجرید کی زندگی بسر کرتے ہیں خلقت ان کو بزرگ جانتی ہے۔" (١٨٩٧ء، تاریخ ہندوستان، ١٣٠:٦)
توکل english meaning
trusting (to)depending (upon); trust in God; faithreliance; resignation (to the Divine Will)to slip away or to run awaytrust in GodTawakkal
شاعری
- یہ عشق بے اجل کُش ہے بس اے دل اب توکل کر
اگرچہ جان جاتی ہے چلی لیکن تغافل کر - پاؤں پھیلائے مگر ہاتھ نہیں پھیلایا
زندگی بھر کا توکل ہے میرا سرمایا - توکل کے بازو کیرے تول سوں
لیتی چیند پانی خوش اوس ڈول سوں - تجاہل تغافل تساہل کیا
ہوا کام مشکل توکل کیا - مرد درویش ہوں تکیہ ہے توکل پہ مرا
خرچ ہر روز ہے یاں آمد بالائی کا - خدا خود میر ساماں ست ارباب توکل راہ
بھرا ہے موتیوں سے دیکھ لو داماں ساحل کا - سادگی ہے عدم قدرت ایجاد غنا
ناکسی آئینہ ناز توکل تا چند - نان شبینہ کے لئے جوں ماہ پھر نہ شیخ
گوشہ میں بیٹھ کر کے توکل علی الصباح
محاورات
- اللہ توکلی کارخانہ ہے
- توکل پر بیٹھنا۔ کرلینا یا گزارہ کرنا
- توکل کرنا (یا پر بیٹھنا)
- خدا پر تکیہ (توکل) ہونا
- خدا پر تکیہ (توکل) کرنا
- خدا خود میر سامان است اسباب توکل را