تپانا
{ تَپا + نا }
تفصیلات
iسنسکرت زبان سے ماخوذ مصدر |تپنا| کا تعدیہ ہے اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور فعل استعمال ہوتا ہے ١٦٣٩ء کو غواصی کے "طوطی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔
["تَپ+آپیہ "," تَپانا"]
اسم
فعل متعدی
تپانا کے معنی
گرمی نے زمین کو تپایا بھانے لگا ہر کسی کو سایہ (١٩١١ء، کلیات اسماعیل، ٦)
تونے رکھے ہیں عشق کے درجے تو سمجھتا ہے حسن کے رتبے پہلے تاتا ہے پھر تپاتا ہے کار ساز قدیم کیا کہنا (١٩١١ء، نذر خدا، ٣٣)
"زیور یا (دوسرے) سامان (تیار کرنے) کے لیے لوگ آگ میں تپاتے (اور گلاتے) ہیں۔" (١٩٧٠ء، تاثرات، ٢٨٨)
خود کو تپایا پگھلایا کیا اس کو پانے خود کو گنوایا (١٩٤٤ء، دو نیم، ١٤٤)
پیوں نجات سمجھ کر جو عشق ساقی ہے دردو پڑھ کے تپاؤں پئے ثواب شراب (١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٧٢)
ہوسکہ رائج میں بھی شاید کچھ کھوٹ پر اس کو کسی نے یاں تپایا ہی نہیں (١٨٩٢ء، دیوان حالی، ١٣٩)
جلایا ایسے ویسوں کو جھبی تو ناک میں دم ہے ہم ایسے خاکساروں کو تپاؤ تو دھواں کیوں ہو (١٩٥٧ء، یاس و یگانہ، گنجینہ، ٥٨)
لگی شہ کوں تل تل تپانے سکی کہ نیں دیتی ٹک ہات لانے سکی (١٦٠٩ء، قطب مشتری، ١٠٧)
"دھوپ ہریا کے کندنی رنگ کو تپا کر گلابی بنا رہی تھی۔" (١٩٥٢ء، ہمارا گاؤں، ٧٥)
"وہ کیا گائے ابھی بیماری سے اٹھا ہے صنعف سے آواز تپاتی ہے۔" (١٩٥٧ء، لغت کبیر)
"ڈاکٹر امبید کر کچھ دیر تپاے مگر کچھ سیدھے ہو گئے۔" (١٩٣٥ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، ٢٠، ٤٢:٤)
مترادف
گرمانا