جہاں گیری
{ جَہاں + گی + ری }
تفصیلات
iفارسی زبان سے ماخوذ اسم |جہاں| کے ساتھ فارسی مصدر |گرفتن| سے مشتق صیغہ امر |گیر| کے ساتھ |ی| بطور لاحقہ کیفیت ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم اور صفت مستعمل ہے۔ ١٦٧٨ء میں "کلیات غواصی" میں مستعمل ملتا ہے۔
[""]
اسم
صفت نسبتی ( واحد ), اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- ["جمع : جَہاں گِیریاں[جَہاں + گی + رِیاں]","جمع غیر ندائی : جَہاں گِیرِیوں[جَہاں + گی + رِیوں (و مجہول)]"]
جہاں گیری کے معنی
["١ - \"عدل جہانگیری\""]
["\"خطوط شمشیر تصور کر کے اس سے مضمون جہانگیری کا نکالنا تھا۔\" (١٨٣٨ء، بستان حکمت، ٤٥)"," یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی (١٩٢٤ء، بانگ درا، ١، ٢٠٧)","\"ہاتھوں میں کڑے، چوڑیاں جہانگیریاں، پہنچیاں، کنگن اور علی بند۔\" (١٩٧٥ء، لکھنو کی تہذیبی میراث، ٢٠١)"]
["١ - ملک گیری، بادشاہت۔","٢ - تمام دنیا کو گرفت میں لینے کی کیفیت، ساری دنیا میں پھیلنے یا عام ہونے کی حالت۔","٣ - چوڑی کی وضع کا جالی دار زیور جو کلائی میں پہنتے ہیں، بعض میں گھنگھرو بھی ہوتے ہیں، پری بند، پری جھپک، پری چھن، جوئی (اس کا موجد جہانگیر یا نورجہاں کو بتایا جاتا ہے) بقول بعض لاکھ یا کانچ کی چوڑی۔"]
انگلش
["of or relating to jahangir"]