خرید کے معنی
خرید کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ خَرِید }
تفصیلات
iفارسی مصدر |خریدن| سے حاصل مصدر |خرید| بنا۔ اردو میں بطور اسم اور گاہے بطور صفت مستعمل ہے۔ ١٧٤١ء کو "دیوان شاکر ناچی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["خریدنا","(س۔ کری ۔ خریدنا)","خرید کردہ","خریدہ جیسے زرخرید","خریدی ہوئی","مول لی ہوئی","مول لینا"]
اسم
صفت ذاتی ( واحد ), اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
خرید کے معنی
["\"میں نے تیرا نمک کھایا ہے اور تیرے خاوند کا خرید ہوں\" (١٨٠١ء، طوطا کہانی، ٨)"]
[" مانا کہ قیمتی ہے مگر مفت نذر ہے موقع یہ خوب ہے مرے دل کی خرید کا (١٩٢٤ء، دیوان بشیر، ١٤)","\"قیمت جو کچھ فہرست میں ہے نصف خرید ہے اور نصف نفع ہے\" (١٨٠٢ء، باغ و بہار، ٢٠١)"," ناکوں پہ مفسدوں (کے) تعقب کرے ہنوز گھوڑے نے تیرے کھائی ہے اور کھیت کی خرید (١٧٤١ء، شاکر ناجی، دیوان، ٣٠٠)"," قلوق و قطوب و رقوب و علوق خریع و خرید و عقیم و بنون (١٩٦٩ء، مزمور میر مغنی، ١٢٥)"]
خرید کے مترادف
مول
اشتراء, بہا, خریداری, شراء, قیمت, لاگت, مول
خرید کے جملے اور مرکبات
خرید و فروخت, خرید ازدواج, خرید خط, خرید کا مول
خرید english meaning
costpricepurchase
شاعری
- جب تک بکے نہ تھے‘ کوئی پوچھتا نہ تھا
تونے خرید کر مجھے انمول کردیا - دیارِ مصر میں دیکھا ہے میں نے دولت کو
ستم ظریف پیمبر خرید لیتی ہے - کسی دکاں سے ملے تو خرید لوں کچھ عمر
کہ اب تلک تو کٹی زندگی سزا کی طرح - برے شوق سے مرے گھر جلا، کوئی آنچ تجھ پہ نہ آئے گی
یہ زباں کسی نے خرید لی، یہ قلم کسی کا غلام ہے - گاہک نہیں رہے ہیں جہاں میں کمال کے
بازار گرگیا ہے سخن کی خرید کا - ناکوں پہ مفسدوں(کے) تعقب کرے ہنوز
گھوڑے نے تیرے کھائی ہے اور کھیت کی خرید - فلوق و قطوب و رقوب و علوق
خریع و خرید و عقیم وبنون - گرم ہے شہ کے حسن کا بازار
آج نظارگی خرید کرو - ہوا ہے مشتری اس رشک مشتری کا دل
کیا جو اہل خرد کے ہزار دل کوں خرید - فلوق و قطوب و رقوب و علوق
خریع و خرید و عقیم و بنون
محاورات
- ایک ٹکا میری گانٹھی لڈو کھاؤں یا ماٹھی / ایک ٹکا میرے پلے بانس خریدوں کہ بلے
- بٹے پر خریدنا
- درد سر خریدنا
- رد بندہ خریدار خدا
- رو بندے خریدار خدا
- زر دادن و درد سر خریدن
- زردادن و درد سر خریدن
- سدا میاں گھوڑے ہی تو (خریدا کرتے ہیں) رکھتے تھے
- سوت کی انٹی اور یوسف کی خریداری
- ناز برآں کن کہ خریدار تست