خریدار کے معنی

خریدار کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ خَرِی + دار }

تفصیلات

iفارسی زبان سے ماخوذ لفظ |خرید| کے ساتھ |ار| بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے |خریدار| بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["طلب گار","مول لینے والا"]

اسم

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )

اقسام اسم

  • جمع غیر ندائی : خَرِیداروں[خَری + دا + روں (و مجہول)]

خریدار کے معنی

١ - مول لینے والا، گاہک۔

"اپنی نام نہاد . عظمت اور عزت بیچ رہی ہو تو پھر یہ کیوں دیکھتی ہو کہ خریدار کا رنگ کیا ہے" (١٩٧٧ء، ابراہیم جلیس، الٹی قبر، ١٠٢)

٢ - طلب گار، خواہاں، قدر داں

"جن لوگوں کے دلوں میں سچائی اور راستی کا عنصر ہے وہ خود اپنی ہم جنس شے کے طلب گار اور خریدار ہوتے ہیں" (١٩٢٣ء، سیرۃ النبیۖ، ١٠٢:٢)

خریدار کے مترادف

طالب, گاہک

خواہاں, طالب, طلبگار, گاہك, گاہک, مشتری

خریدار english meaning

purchaserbuyer; holder by purchase; customer; a loverbuyercontraction [A~ تخفیف]customer

شاعری

  • عالم میں کوئی دل کا طلب گار نہ پایا
    اس جنس کا یاں ہم نی خریدار نہ پایا
  • خواہان مرگ میں ہی ہوا ہوں مگر نیا
    جی بیچے ہی ہے اب تو خریدار عشق کا!
  • گرم ہیں شور سے تجھ حسن کے بازار کئی
    رشک سے جلتے ہیں یوسف کے خریدار کئی
  • آوے جو کوئی آئینہ بازار دھر میں
    بارے متاع دل کا خریدار کیوں نہ ہو
  • یوسف سے کئی آن کے تیرے سرِ بازار
    بک جاتے ہیں باتوں میں خریدار ہمیشہ
  • صد کارواں وفا ہے کوئی پوچھتا نہیں
    گویا متاعِ دل کے خریدار مرگئے
  • بازارِ ازل یوں تو بہت گرم تھا‘ لیکن
    لے دے کے محبت کے خریدار ہم ہی تھے
  • دنیا میں اس کا کوئی خریدار ہی نہیں
    میں بیچتا ضرور جو بکتا کہیں میرا نصیب
  • کچھ حسن کی ہوتی نہ یہاں قدر و قیمت
    جو عشق کبھی اس کا خریدار نہ ہوتا
  • بستے ہیں ہند میں جو خریدار ہی فقط
    آغا بھی لے آتے ہیں اپنے وطن سے ہینگ

محاورات

  • رد بندہ خریدار خدا
  • رو بندے خریدار خدا
  • سوت کی انٹی اور یوسف کی خریداری
  • ناز ‌برآں ‌کن ‌کہ ‌خریدار ‌تست
  • یکے ‌یوسف ‌و ‌ہزار ‌خریدار

Related Words of "خریدار":