درکار کے معنی
درکار کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ دَر + کار }
تفصیلات
iفارسی زبان سے ماخوذ اسم |در| کے ساتھ فارسی مصدر |کاریدن| سے صیغہ امر |کار| لگانے سے |درکار| بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٦٣٠ء سے "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["جس کی آرزو ہو","مطلوب (ہونا کے ساتھ)"]
اسم
صفت ذاتی ( واحد )
درکار کے معنی
١ - ضروری؛ مطلوب؛ ضرورت؛ خواہش، چاہت۔
"ایک مطالعاتی تجزیہ کے لیے این ایل سی پر آپ کی مطالعاتی رپورٹ کی ایک نقل درکار ہے۔" (١٩٨٤ء، دفتری مراسلات، ٤٠)
درکار english meaning
necessary; in requisitionrequiredwanted(see under درا N.M. & SUF.*)adjustbecome reconciled (to)compound [A~ صلح]desiredmake peace (with)needed (ly)wanted (ly)
شاعری
- ہر روز اٹھ مجرا کریں درکار یک صد گرپڑیں
بے شرم آپس موں لڑیں یہ نوکری کا خبط ہے - مشعل جلوہ معشوق ہے درکار سراج
دل کہاں زلف کی گلیوں میں بھٹکتا جاوے - تیرے قامت پہ درافشاں ہوں کہاں تک آنکھیں
مایہ درکار ہے اس مصرف بالائی کو - تھوڑے سے بستروں کی ہے درکار ہم کو جا
جنگل ہوا تو کیا جو ترائی ہوئی تو کیا - آب رحمت سے بھی بجھنے کی نہیں جی کی لگی
داغ سوزاں کی چمن کو نہیں درکار گھٹا - ہے جو شے دنیا میں سو انسان کو درکار ہے
موت بھی ایک اور جیتی جان کو درکار ہے - باغباں ہم سے خشونت سے نہ پیش آیا کر
عاقبت نالہ کشاں بھی تو ہیں درکار چمن - الٹ دے جو بساطِ عرصہ کوں ومکاں آخر
ترے صدقے مجھے وہ بیخودی درکار ہے ساقی - بیگار بھی درکار ہیں سرکار میں صاحب
آتے ہیں کھچے ہم کبھی بیگارمیں صاحب - نفس کی ہاکی دِثار اور قلب کی صافی شمار
بس مُجھے درکار نئیں دنیا کی زِینت کا لباس
محاورات
- اپنے گھر آئے کتے کو بھی نہیں درکارتے
- انچہ مادر کار داریم اکثرش درکار نیست
- باخدا کارست مارا نا خدا درکارنیست
- بنیا جس کا یار اس کو دشمن کیا درکار
- بولے تو بیوی میری نہیں تو درکار نہیں تیری
- جس کا بنیا یار اس کو دشمن کیا درکار
- حرص قانع نیست بیدل ورنہ اسباب معاش آنچہ ما درکار داریم اکثرے درکار نیست
- درکار خیر حاجت ہیچ استخارہ نیست
- زندگی درکار ہونا