دست گیر کے معنی

دست گیر کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ دَسْت + گِیر }

تفصیلات

iفارسی زبان سے ماخوذ اسم |دست| کے ساتھ مصدر |گرفتن| سے مشتق صیغہ امر |گیر| بطور لاحقہ فاعلی لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٥٤٩ء سے "پرت نامہ (اردو ادب، جون ١٩٥٧ء)" میں مستعمل ملتا ہے۔, m[]

اسم

صفت ذاتی ( واحد )

دست گیر کے معنی

١ - ہاتھ پکڑنے والا، مددگار، معین۔

"عرفات کے میدان میں اسی شرفِ دوجہاں اور دست گیر افتادگاں کو دیکھا۔" (١٩٨١ء، سفر در سفر، ٢٣٣)

٢ - قید؛ قیدی، گرفتار۔

"حکم کیا کہ بندر میں جا کر شاہ بندر کو دستگیر کر کے اس مسلمان کے حوالے کریں۔"١٨٠٢ء، باغ و بہار، ١٧٤

٣ - [ مجازا ] محبوب

 گو ہوں غریقِ بحرِ غم، اُبھروں گا اے فلک کبھی ہاتھ تو بڑھنے دے اِدھر، تو مرے دست گیر (١٩٢٤ء، رمز و کنایات، ٢٤٤)

٤ - حضرت محبوب سبحانی میدان محی الدین گیلانی غوث الاعظم کا لقب جن کا مزار بغداد میں مرجع خاص و عام ہے۔

 بہا میں بحر میں جاتا ہوں غم کے بے کس آج مدد شتاب سیں یا دست گیر ہو جاتا (١٧٤٧ء، دیوان قاسم، ٩)

٥ - اسلامی تقدیم کا چوتھا مہینہ، ربیع الثانی۔

"محرم، تیرہ تیزی، بارہ وفات، گیارہویں یا دست گیر . خالی اور بقر عید جسے روانی میں بکرید کہتے تھے۔" (١٩٧٤ء، پھر نظر میں پھول مہکے، ٦٢)

محاورات

  • دست گیری

Related Words of "دست گیر":