دکن کے معنی

دکن کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ دَک + کَن }

تفصیلات

iسنسکرت زبان سے اسم جامد ہے۔ سنسکرت کے لفظ |دکشن| سے ماخوذ ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ مستعمل ہوا۔ سب سے پہلے ١٥٦٤ء کوحسن شوقی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔, m["جنوب کی طرف","جنوبی علاقہ","حیدر آباد دکن","خصوصاً جنوبی ہند کا علاقہ (حیدر آباد دکن)","دیکھئے: دکھن"]

دَکْشَن دَکَّن

اسم

اسم معرفہ ( مذکر - واحد )

دکن کے معنی

١ - جنوب۔

 عبث اے شعور خود آگہی تجھے جستجو ہے رئیس کی کہ وہ محو عالم بے خودی نہ شمال میں نہ دکن میں ہے (١٩٧٥ء، حکایت نے، ٧٧)

٢ - جنوبی علاقہ، خصوصاً جنوبی ہند کا علاقہ (حیدر آباد وغیرہ)۔

 فانی دکن میں آ کے یہ عقدہ کھلا کہ ہم ہندوستاں میں رہتے ہیں ہندوستاں سے دور (١٩٤١ء، فانی، کلیات، ١٠٣)

دکن english meaning

confuse ; perplexdishevel (hair)embarrasshareperturbscalter cast to the windssouth India

شاعری

  • جو تھے تماشا بیں دکن کے چمن منیں
    تجھ گل اپر وہ بلبل شیدا ہوئے اتال
  • خبث نفس اہل دکن میں نہ رہا نام کو بھی
    نہ ملے بہر دوا ڈھونڈیئے گر خبث حدید
  • دربار دُرربار ہے سلطانِ دکن کا
    سب اہلِ حشم جمع ہیں فرزانہ وزیرک
  • سو بارہ اماماں مدد ہے قطب گوں
    اوُسی تھے یو سارا دکن ہے متابع
  • خوگر نہیں ہم یوں ہی کچھ ریختہ کہنے سے
    معشوق جو اپنا تھا باشندہ دکن کا تھا
  • یوں سلاطینِ دکن میں ہے ترا دورِ سعید
    جس طرح سارے مہینوں میں مبارک ماہِ عید
  • فانی دکن میں آکے یہ عقُدہ کُھلا کے ہم
    ہندوستاں میں رہتے ہیں ہندوستاں سے دور
  • طوطا پری، لال دیا ، د پنسد
    کہتے ہیں نامی انہیں اہل دکن
  • اردو کے دھنی وہ ہیں جو دّلی کے ہیں روڑے
    پنجاب کو مَس اس سے نہ پورپ نہ دکن کو
  • تری مژگاں راوت چڑھ گئی جب ان پہ لڑنے کو
    پڑی پونا کے اندر کھلبلی سارا دکن بگڑا

محاورات

  • اتر جاؤ کہ دکن وہی کرم کے لکھن
  • اتر رہے بتاوے دکن۔ وا کے اچھے نہیں لکھن
  • اتر گرو دکن میں چیلا۔ کیسے بدھیا پدھے اکیلا
  • اتر کی ہو استری دکن بیاہی جائے۔ بھاگ لگائے جوگ جب تو کچھ نہ پار بسائے
  • بدک جانا۔ بدکنا
  • بر میں نہ جائیں مہر یا دکن جائیں
  • پچھم جاؤ کہ دکن وہی کرم کے لکھن
  • پچھم کا گھوڑا دکن کا چیر
  • جاپوت دکن وہی کرم ‌کے لچھن
  • سکھلائے پوت دکن نہیں جاتے

Related Words of "دکن":