دھڑکا کے معنی
دھڑکا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ دَھڑ + کا }
تفصیلات
iپراکرت الاصل لفظ |دڈھک| سے ماخوذ مصدر |دھڑکنا| سے حاصل مصدر |دھڑک| کے ساتھ |ا| بطور لاحقہ تکبیر بڑھانے سے |دھڑکا| بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور ١٦٦٥ء کو "سیف الملوک و بدیع الجمال" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["اختلاج قلب","بیم و ترس","پرندوں کو ڈرانے کا پتلا","تپاک قلب","دل کی دھڑکن","دیکھئے: دھڑاکا","زور کی آواز","کھٹکھٹانے کی آواز","ہول دل"]
دڈھک دَھڑْکا
اسم
اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- واحد غیر ندائی : دَھڑْکے[دَھڑْکے]
دھڑکا کے معنی
دل کے دھڑکے سے مجھے نیند نہ آئی شبِ وصل سوتے سوتے جو کہاں اُس نے کہ گھر جاؤں گا (١٩٢٤ء، مصحفی، دیوان (انتخاب رام پور)، ٥٤)
صفی دھڑکے کی بیماری سے ہوں مجبور اسیر بھی رہیں گی یاد چیتا پور کو تُک بندیاں میری (١٩٤٥ء، فردوسِ صفی، ١٥١)
"جب میں نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا تو یہ دھڑکا بے معنی ہے۔" (١٩٨٠ء، دیوار کے پیچھے، ١٠)
دھڑکا کے مترادف
پھڑک, ڈر, خطرہ
انبوہ, بھیڑ, بھَے, بیم, خطرہ, خفقان, خوف, دھچکا, دھماکا, دھمکی, دھکا, دہشت, صدمہ, گرج, ڈر, کڑک, ہول
دھڑکا english meaning
be carried away for burial
شاعری
- دھڑکا ہے دلِ زار ترے ذکر سے پہلے
جب بھی کسی محفل میں تری بات چلی ہے - ضبط کے ٹوٹ گئے آج تو بندھن سارے
آج تڑپا ہے وہ دل جو کبھی دھڑکا بھی نہ تھا - وہ دوراہا بھی آگیا امجد
جس کا دھڑکا تھا ابتدا سے ہی - برنگ گل شگفتہ تھا دل اس کا
مگر تھا خارزن نائی کا دھڑکا - لڑنے کی فکر مشک کا دھڑکا علم کا دھیان
جی سن سے ہو گیا کہیں کڑکی اگر کمان - کوئی روتا ہے کوئی ہنستا ہے کوئی ناچے ہے کوئی گاتا ہے
کوئی چھینے، جھپکے، لے بھاگے، کوئی دھونس دھڑکا لاتا ہے - جو اورکی پگڑی لے بھاگے اس کا بھی اور اچکا ہے
جو اور پہ چوکی بٹھلاوے اس پر بھی دھونس دھڑکا ہے - موت کا دھڑکا اناللہ، رنگ شکستہ، دل مردہ
اس سے تو اے دل مرنا بہتر، دم میں وارا نیارا ہے - دھڑکا مجھے اس بات کا دن رات ہے رہتا
ہوجائے نہ سایہ کہیں دریاؤ پری کا - دل کچھ اس ڈھنگ سے دھڑکا ہے ابھی
آپ کا نام لیا ہو جیسے
محاورات
- دھڑکا (لگا) رہنا
- کلیجا دھڑکا دینا