دیار کے معنی
دیار کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ دِیار }
تفصیلات
iعربی زبان سے ماخوذ اسم |دار| کی جمع ہے۔ اردو میں بطور واحد مستعمل ہے۔ ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ اردو میں داخل ہوا اور سب سے پہلے ١٦٧٩ء کو شاہ سلطان ثانی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔, m["اردو میں بطور مفرد استعمال ہوتا ہے","دار کی جمع اصلی معنی گھر","دیر کا حاکم","ملکِ عدم","کوئی شخص"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : دِیاروں[دِیا + روں (و مجہول)]
دیار کے معنی
سنگِ خارا کے مساکن ہوں کہ آہن کے دیار حادثوں کے واسطے ہیں آنکھوں کے حصار (١٩٣٣ء، سیف و سبو، ٥١)
"یہ اس دریا میں آخری صبح تھی۔" (١٩٨٠ء، زمیں اور فلک اور، ٨٨)
وہ شہر دیار دار و رسن یہ شہر صلیب فکرو نظر (١٩٦٢ء، پتھر کی لکیر، ٢٩)
"جو قومیں اپنے رجال و دیار کی توقیر اور ان کے احوال و کوائف کا تحفظ نہیں کرتیں وہ آہستہ آہستہ ماضی حال اور مستقبل کے حقیقی مناظر سے محروم ہو جاتی ہیں۔" (١٩٨٣ء، حصارِانا، ١٧)
"میں ایک زمانے کے بعد اس دیار میں آیا تو یاروں نے کس محبت سے گلے لگایا۔" (١٩٨٤ء، زمیں اور فلک اور، ٣١)
کیوں کر مسافرانِ عدم کی چڑھے نہ سانس رہ رہ کے کھینچتی ہے ہوائے دیارِ دوست (١٩٢٧ء، شاد عظیم آبادی میخانۂ الہام، ١٣٤)
کچھ اور طرز ستم، مشق ناز بےگہنی کہ اس دیار میں پتھر سے کوئی ڈرتا نہیں (١٩٨١ء، ملامتوں کے درمیان، ٣٢)
اون کے رخسار پہ رہتی ہے نظر آٹھ پہر ہے مرے نام پہ تحصیل دیار عارض (١٨٩١ء، تعشق، دیوان، ٣٠٢)
چنانچہ کہ شبو ہے اب روبکار ہے گویا سواد دیار بہار (١٧٨٤ء، مثنوی در صفِ قصر جوہر (مثنویات حسن)، ٢٤٤:١)
دیار کے مترادف
خطہ, نگر
بستی, بلاد, حدود, شہر, علاقہ, گھر, ملک, مُلک, مکان, وطن
دیار کے جملے اور مرکبات
دیار ناز, دیار غیر, دیار شب, دیار جاں
دیار english meaning
countryregionprovince(Plural) (rare) houses(rare) egotism [P]a countryhouselandlatersoilterritory
شاعری
- دل نے سر کھینچا دیار عشق میں اے بوالہوس
وہ سراپا آرزو آخر جواں مارا گیا - ہم پلہ اپنا کون ہے اس معرکہ کے بیچ
کس کے تراز دیار کا تیرِ نگہ ہوا - گھر کیسے کیسے دیں کے بزرگوں کے ہیں خراب
القصہ ہے خرابۂ کہنہ دیار عشق - رہی نہ گفتہ مرے دل میں داستاں میری
نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری - تو ہے کس ناحیہ سے اے دیار عشق کیا جانوں
ترے باشندگاں ہم کاش سارے بیوفا ہوتے - فرط غمِ حوادثِ دوراں کے باوجود
جب بھی ترے دیار سے گزرے‘ مچل گئے - یہ کس حسیں دیار کی ٹھنڈی ہَوا چلی
ہر موجۂ خیال پہ صَدہا شِکن پڑے - گزرا اِدھر سے جب کوئی جھونکا‘ تو چونک کر
دل نے کہا‘ یہ آگئے ہم کس دیار میں - میرے دیارِ تمنا میں روشنی کہ نہ ڈھونڈ
کہ اس دیار میں سب کچھ ہے روشنی کے سوا - مرکز سے دائرے کا وہی فاصلہ رہا
سر پر تھا آسمان‘ گئے جس دیار میں