دیکھ بھال کے معنی

دیکھ بھال کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ دیکھ (ی مجہول) + بھال }

تفصیلات

iسنسکرت سے ماخوذ اسم |دیکھ| کے ساتھ سنسکرت سے ماخوذ اردو مصدر |بھالنا| سے حاصل مصدر |بھال| لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٨٤٦ء سے "کلیات صنعت" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["پال پوس","خبر گیری","غورو پرداخت","گھورا گھاری","نگرانی (کرنا ہونا کے ساتھ)","ڈھونڈ ڈھانڈ","کسی چیز کو غور سے دیکھنا"]

اسم

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )

دیکھ بھال کے معنی

١ - دیکھنے، تاکنے یا جھانکنے یا دیکھنے بھالنے کا عمل، نظارہ، دیدار، وسیلۂ نظر۔

 چوری چھپے کی دیکھ بھال بات مزے کی ہے یہی دیکھوں میں اور نہ دیکھیں وہ گھات مزے کی ہے یہی (١٩٢٥ء، شوق قدوائی، عالم خیال، ٣١)

٢ - نگرانی، خبر گیری، سرپرستی۔

"ان کی دیکھ بھال کرنے کے لیے اس نے بہت سے نوکر رکھ چھوڑے تھے۔" (١٩٧٨ء، کلیاں، عبادہ رضوی، ٤٦)

٣ - تیمار داری۔

"حضرت ایوب کو ان کے تمام عزیزوں نے چھوڑ دیا، صرف ایک وفادار بیوی باقی رہ گئیں جو ان کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔" (١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٧٤٩:٣)

٤ - غور و فکر، نظر۔

"انسان اپنی اس قوت کو جس کا نام شوق ہے کس طرح دیکھ بھال اور سوچ بچار کر کسی بات میں صرف کرے۔" (١٨٧٦ء، تہذیب الاخلاق، ٤٨٧:٢)

٥ - تلاش، جستجو، چھان بھٹک۔

"جب میں نے والد مرحوم کے زمانے کے پرانے خطوط کی دیکھ بھال کی تو . ایک بنڈل داغ کے خطوط کا دستیاب ہوا۔" (١٩٥٥ء، زبان داغ (دیباچہ)، ١٢)

٦ - پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی کیفیت، احتیاط۔

 بولے یہ پڑھ کے عون و محمد بعد جلال کچھ بھی سہی مگر ہمیں لازم ہے دیکھ بھال (١٩٣٦ء، روح حیرت، ١٧)

شاعری

  • … کئی سال ہوگئے

    خوابوں کی دیکھ بھال میں آنکھیں اُجڑ گئیں
    تنہائیوں کی دُھوپ نے چہرے جلادیئے
    لفظوں کے جوڑنے میں عبارت بکھر چلی
    آئینے ڈھونڈنے میں کئی عکس کھوگئے
    آئے نہ پھر وہ لوٹ کے‘ اِک بار جو گئے

    ہر رہگزر میں بِھیڑ تھی لوگوں کی اِس قدر
    اِک اجنبی سے شخص کے مانوس خدّوخال
    ہاتھوں سے گر کے ٹوٹے ہُوئے آئنہ مثال
    جیسے تمام چہروں میں تقسیم ہوگئے
    اِک کہکشاں میں لاکھ ستارے سمو گئے

    وہ دن‘ وہ رُت ‘ وہ وقت ‘ وہ موسم‘ وہ سرخُوشی
    اے گردشِ حیات‘ اے رفتارِ ماہ و سال!
    کیا جمع اس زمیں پہ نہیں ہوں گے پھر کبھی؟
    جو ہم سَفر فراق کی دلدل میں کھوگئے
    پتّے ج گر کے پیڑ سے‘ رستوں کے ہوگئے

    کیا پھر کبھی نہ لوٹ کے آئے گی وہ بہار!
    کیا پھر کبھی نہ آنکھ میں اُترے گی وہ دھنک!
    جس کے وَفُورِ رنگ سے چَھلکی ہُوئی ہَوا
    کرتی ہے آج تک
    اِک زُلف میں سَجے ہُوئے پُھولوں کا انتظار!

    لمحے‘ زمانِ ہجر کے ‘ پھیلے کچھ اِس طرح
    ریگِ روانِ دشت کی تمثال ہوگئے
    اس دشتِ پُرسراب میں بھٹکے ہیں اس قدر
    نقشِ قدم تھے جتنے بھی‘ پامال ہوگئے
    اب تو کہیں پہ ختم ہو رستہ گُمان کا!
    شیشے میں دل کے سارے یقیں‘ بال ہوگئے
    جس واقعے نے آنکھ سے چھینی تھی میری نیند
    اُس واقعے کو اب تو کئی سال ہوگئے!!
  • ہم نے ترے خیال میں ڈھونڈا ترے جمال کو
    لفظوں کی دیکھ بھال میں معنی کہیں نکل گئے
  • تم جو کہو تو رخ پہ میں آنچل اٹھا کے ڈال لوں
    اس میں تو ہرج کچھ نہیں جھانک کے دیکھ بھال لوں
  • ہوا یہ دیدہ زہگیر سے مجھے ثابت
    تری کمان بھی کچھ دیکھ بھال رکھتی ہے
  • تیرِ مژہ کا اس کے دل ہوگیا نِشانہ
    ہے دُور سے بھی جس کی اب دیکھ بھال مُشکل
  • چوری چھُپے کی دیکھ بھال بات مزی کی ہے یہی
    دیکھوں میں اور نہ دیکھیں وہ گھات مزے کی ہے یہی
  • رکھتا تھا اس ذقن پہ قدم دل سنبھال کر
    گرِتا کنویں میں کوئی بھی ہے دیکھ بھال کر
  • دشمن بہت ہیں بادشہِ خوش خصال کے
    بھائی بہن نثار ذرا دیکھ بھال کے
  • کہیے تو نیزہ بازوں کو ہم دیکھ بھال لیں
    تیوری کوئی چڑھائے تو آنکھیں نکال لیں

محاورات

  • سستے کو دیکھ بھال کے لینا چاہئے
  • ٹھوک بجالے بست کو۔ ٹھوک بجاوے دام۔ بگڑت ناہیں بالکے۔ دیکھ بھال کا کام