سانس کے معنی
سانس کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ سانْس (ن غنہ) }
تفصیلات
iاصلاً پراکرت زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں پراکرت سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٦٥ء کو "جواہر اسراراللہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بادِ دہن","بھاپ جیسے دیگ کا سانس روکدو","پھونک جیسے جب تک سانس سے تب تک آس ہے دوہا","پھونک جیسے جیتک سانس ہے تب تک آس ہے (دوہا)","تھوڑا سا وقت","چھے تک گنے کے وقفہ کو بھی ایک سانس کہتے ہیں اگرچہ اکثر شعرائے اردو نے اسے مونث باندھا ہے مگر بول چال میں مذکر ہی سنا جاتا ہے بلکہ جرات نے بھی اس غزل میں جس کا قافیہ وصال بحال نہال اور دیف ہوا ہے مذکر ہی باندھا ہے چنانچہ ہم مطلع اور وہ شعر اس جگہ درج کرتے ہیں","دمہ کا مرض","سوراخ یا شگاف جس میں سے ہوا نکلے","موجِ نفس","وہ ہوا جو جاندار کے پھیپھڑوں میں جاتی اور ناک کے رستے واپس نکلتی ہے"]
اسم
اسم کیفیت ( مذکر، مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : سانْسیں[ساں + سیں (ی مجہول)]
- جمع غیر ندائی : سانْسوں[ساں + سوں (واؤ مجہول)]
سانس کے معنی
ہر سانس کھٹکتا ہی رہا سینے میں پیہم گزرا نہ تری یاد سے خالی کوئی دم بھی (١٩٠٥ء، گفتار بے خود، ٢٣٢)
"چاول بھی وہ کہ ایک ایک دانہ بلور کا تراشا، دو سانسوں میں دم پہ آیا، ایک ایک دانہ دو دو انگل کا۔" (١٩٥٤ء، اپنی موج میں، ٨٤)
"ایک سانس میں کچھ اور دوسری . میں کچھ۔" (١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ٣٤:١)
"حقے کی نے میں سانس پڑ گئی ہے۔" (١٩٢٩ء، نوراللغات، ١٨٩:٣)
"اس بھجن میں ہے کہ روح (سانس) انسان بظاہر غیر شعوری ہے، بلائی جا سکتی ہے۔" (١٩٤٥ء، تاریخ ہندی فلسفہ (ترجمہ)، ٣٧:١)
سانس کے مترادف
پھونک
آہ, اُف, بھاپ, پران, پُف, پھونک, تنفس, جان, دراڑ, درز, دم, رغنہ, روان, روح, ساں, ساہ, شگاف, شواش, نفس
سانس english meaning
breathrespiration; sigh; a unit of time (equal to six breathings); a crack or fissure (which lets in air)exorcize
شاعری
- لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا!! - لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا - لگا کے آگ بدن میں‘ وہ مجھ سے چاہتا ہے
کہ سانس لوں تو فضا کو دھواں دھواں نہ کروں - خوشبو تو سانس لینے کو ٹھہری تھی راہ میں
ہم بدگماں ایسے کہ گھر کو پلٹ گئے - سانس لینے کو سمجھتے ہیں حیات اے شاعر
لوگ واقف تو ہوں جینے کی ادا سے پہلے - سانس لینے کا تصور بھی گراں ہو جس پر
حوصلہ وہ مرے جینے کی ادا سے مانگے - شوقِ سفر میں گرد نہ اتنی اُڑا کہ پھر
منزل پہ جاکے سانس بھی لینا محال ہو - کانٹوں سے دل لگاؤ کہ تا عمر ساتھ دیں
پھولوں کا کیا کہ سانس کی گرمی نہ سہہ سکیں - میں بے طلب نہیں‘ ہر سانس کو سوال سمجھ
کہ مانگنا مجھے الفاظ میں نہیں آتا - ہَوا ہے آتشیں مزاج
ہَوا ہے آتشیں مزاج
بدل رہے ہیں سب رواج
بھٹک رہی ہے ‘ روشنی
ہُوا ہے ظُلمتوں کا راج
ہر ایک سانس قرض ہے
تمام زندگی ہے باج
وہ جس کا منتظر تھا ’’کل‘‘
اُسی کا منتظر ہے ’’آج‘‘
نشے میں گُم ہیں تخت و تاج
ہَوا ہے آتشیں مزاج
وَفا کا خُوں ہے ہر طرف
کسی جبیں پہ بَل نہیں
طرح طرح کے تجزیئے
مگر کوئی عمل نہیں
سوال ہی سوال ہیں
کسی کے پاس حل نہیِں
بکھر گئے ہیں پُھول سَب
کسی شجر پہ پَھل نہیں
نہ شرم ہے کوئی نہ لاج
ہَوا ہے آتشیں مزاج
جو پُل تھی سب کے بیچ میں
وہ رسم و راہ کھوگئی
سروں سے چھت سَرک گئی
ہر اِک پناہ کھوگئی
ترا جمال گُم ہُوا
مِری نگاہ کھوگئی
وہ ہم سے آہ‘ کھوگئی
سُلگ رہا ہے سَب سَماج
ہَوا ہے آتشیں مزاج
محاورات
- ابھی ابھی سانسیں لینا
- اطمینان کا (- کی) سانس لینا
- الٹی (الٹے) سانس بھرنا یا لینا
- الٹی (الٹے) سانس چلنا
- الٹی الٹی سانسیں بھرنا یا لینا
- الٹی سانس بھرنا / لینا
- الٹے دم (- سانس) آنا / پھرنا، لینا
- اندر کی سانس اندر اور باہر کی سانس باہر
- اندر کی سانس اندر باہر کی باہر
- اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا (- کی) (سانس) نیچے (رہ جانا)