سب کچھ کے معنی
سب کچھ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ سَب + کُچھ }
تفصیلات
iپراکرت زبان سے ماخوذ اسم |سب| کے ساتھ سنسکرت سے ماخوذ اسم |کچھ| لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت نیز متعلق فعل استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٦٥٧ء سے "گلشن عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["تابع فعل","تمام مال و متاع","سب چیز","سب چیز جیسے سب کچھ گیا میاں کی ٹخ ٹخ نہ گئی","ہر ایک اسباب","ہر ایک چیز"]
اسم
صفت ذاتی ( واحد )
سب کچھ کے معنی
١ - ہر چیز، کل مال و متاع، پورے کا پورا۔
"اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اس آزمودہ کار نسخے کو استعمال کرنا شروع کر دیا کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔" (١٩٨٢ء، آتش چنار، ٥٠٥)
٢ - [ مجازا ] کرتا دھرتا۔
"ان دنوں قاضی عیسٰی ہی بلوچستان میں مسلم کے سب کچھ تھے۔" (١٩٧٦ء، نوائے وقت، لاہور، ٢٠)
سب کچھ english meaning
everythingall.
شاعری
- شمع ہے‘ گل بھی ہے‘ پروانہ بھی
رات کی رات یہ سب کچھ ہے سحر کچھ بھی نہیں - سب کچھ لٹا کے راہِ محبت میں اہل دل
خوش ہیں کہ جیسے دولتِ کونین پاگئے - ضبط بھی‘ صبر بھی‘ امکاں میں سب کچھ ہے مگر
پہلے کم بخت میرا دل تو میرا ہوجائے - میرے دیارِ تمنا میں روشنی کہ نہ ڈھونڈ
کہ اس دیار میں سب کچھ ہے روشنی کے سوا - وہ شعر اور تو سب کچھ ہے‘ صرف شعر نہیں
جو روحِ عصر کا آئینہ دار ہی نہ ہوا - فرق
کہا اُس نے دیکھو‘
’’اگر یہ محبت ہے‘ جس کے دو شالے
میں لپٹے ہوئے ہم کئی منزلوں سے گزر آئے ہیں!
دھنک موسموں کے حوالے ہمارے بدن پہ لکھے ہیں!
کئی ذائقے ہیں‘
جو ہونٹوں سے چل کر لہُو کی روانی میں گُھل مِل گئے ہیں!
تو پھر اُس تعلق کو کیا نام دیں گے؟
جو جسموں کی تیز اور اندھی صدا پر رگوں میں مچلتا ہے
پَوروں میں جلتا ہے
اور ایک آتش فشاں کی طرح
اپنی حِدّت میں سب کچھ بہاتا ہُوا… سنسناتا ہُوا
راستوں میں فقط کُچھ نشاں چھوڑ جاتا ہے
(جن کو کوئی یاد رکھتا نہیں)
تو کیا یہ سبھی کچھ‘
اُنہی چند آتش مزاج اور بے نام لمحوں کا اک کھیل ہے؟
جو اَزل سے مری اور تری خواہشوں کا
انوکھا سا بندھن ہے… ایک ایسا بندھن
کہ جس میں نہ رسّی نہ زنجیر کوئی‘
مگر اِک گِرہ ہے‘
فقط اِک گِرہ ہے کہ لگتی ہے اور پھر
گِرہ در گِرہ یہ لہو کے خَلیّوں کو یُوں باندھتی ہے
کہ اَرض و سَما میں کشش کے تعلق کے جتنے مظاہر
نہاں اور عیاں ہیں‘
غلاموں کی صورت قطاروں میں آتے ہیں
نظریں جُھکائے ہوئے بیٹھ جاتے ہیں
اور اپنے رستوں پہ جاتے نہیں
بات کرتے نہیں‘
سر اُٹھاتے نہیں…‘‘
کہا میں نے‘ جاناں!
’’یہ سب کُچھ بجا ہے
ہمارے تعلق کے ہر راستے میں
بدن سنگِ منزل کی صورت کھڑا ہے!
ہوس اور محبت کا لہجہ ہے یکساں
کہ دونوں طرف سے بدن بولتا ہے!
بظاہر زمان و مکاں کے سفر میں
بدن ابتدا ہے‘ بدن انتہا ہے
مگر اس کے ہوتے… سبھی کُچھ کے ہوتے
کہیں بیچ میں وہ جو اِک فاصلہ ہے!
وہ کیا ہے!
مری جان‘ دیکھو
یہ موہوم سا فاصلہ ہی حقیقت میں
ساری کہانی کا اصلی سِرا ہے
(بدن تو فقط لوح کا حاشیہ ہے)
بدن کی حقیقت‘ محبت کے قصے کا صرف ایک حصہ ہے
اور اُس سے آگے
محبت میں جو کچھ ہے اُس کو سمجھنا
بدن کے تصّور سے ہی ماورا ہے
یہ اِک کیفیت ہے
جسے نام دینا تو ممکن نہیں ہے‘ سمجھنے کی خاطر بس اتنا سمجھ لو
زمیں زادگاں کے مقدر کا جب فیصلہ ہوگیا تھا
تو اپنے تحفظ‘ تشخص کی خاطر
ہر اک ذات کو ایک تالہ ملا تھا
وہ مخصوص تالہ‘ جو اک خاص نمبر پہ کُھلتا ہے لیکن
کسی اور نمبر سے ملتا نہیں
تجھے اور مجھے بھی یہ تالے ملے تھے
مگر فرق اتنا ہے دونوں کے کُھلنے کے نمبر وہی ہیں
اور ان نمبروں پہ ہمارے سوا
تیسرا کوئی بھی قفل کُھلتا نہیں
تری اور مری بات کے درمیاں
بس یہی فرق ہے!
ہوس اور محبت میں اے جانِ جاں
بس یہی فرق ہے!! - ایک اور دھماکہ ہونے تک
بس ایک دھماکہ ہوتا ہے
اور جیتے جاگتے انسانوں کے جسم ’’گُتاوا‘‘ بن جاتے ہیں
ایک ہی پَل میں
اپنے اپنے خوابوں کے انبار سے بوجھل کتنی آنکھیں
ریزہ ریزہ ہوجاتی ہیں
اُن کے دنوں میں آنے والی ساری صبحیں کٹ جاتی ہیں
ساری شامیں کھو جاتی ہیں
لاشیں ڈھونڈنے والوں کی چیخوں کو سُن کر یوں لگتا ہے
انسان کی تقدیر‘ قیامت‘
جس کو اِک دن آنا تھا وہ آپہنچی ہے
مرنے والے مرجاتے ہیں
جیون کے اسٹیج پر اُن کا رول مکمل ہوجاتا ہے
لیکن اُن کی ایگزٹ پر یہ منظر ختم نہیں ہوتا
اِک اور ڈرامہ چلتا ہے
اخباروں کے لوگ پھڑکتی لیڈیں گھڑنے لگ جاتے ہیں
جِن کے دَم سے اُن کی روزی چلتی ہے اور
ٹی وی ٹیمیں کیمرے لے کر آجاتی ہیں
تاکہ وژیول سَج جائے اور
اعلیٰ افسر
اپنی اپنی سیٹ سے اُٹھ کر رش کرتے ہیں
ایسا ناں ہو حاکمِ اعلیٰ
یا کوئی اُس سے ملتا جُلتا
اُن سے پہلے آپہنچے
پھر سب مِل کر اس ’’ہونی‘‘ کے پس منظر پر
اپنے اپنے شک کی وضاحت کرتے ہیں اور
حاکمِ اعلیٰ یا کوئی اس سے ملتا جُلتا
دہشت گردی کی بھرپور مذمّت کرکے
مرنے والوں کی بیواؤں اور بچّوں کو
سرکاری امداد کا مژدہ دیتا ہے
اور چلتے چلتے ہاسپٹل میں
زخمی ہونے والوں سے کچھ باتیں کرکے جاتا ہے
حزبِ مخالف کے لیڈر بھی
اپنے فرمودات کے اندر
کُرسی والوں کی ناکامی‘ نااہلی اور کم کوشی کا
خُوب ہی چرچا کرتے ہیں
گرجا برسا کرتے ہیں
اگلے دن اور آنے والے چند دنوں تک یہ سب باتیں
خُوب اُچھالی جاتی ہیں‘ پھر دھیرے دھیرے
اِن کے بدن پہ گرد سی جمنے لگتی ہے
اور سب کچھ دُھندلا ہوجاتا ہے
خاموشی سے اِک سمجھوتہ ہوجاتا ہے
سب کچھ بُھول کے سونے تک!
ایک اور دھماکہ ہونے تک!! - آنسوؤں کے ساتھ سب کچھ بہہ گیا
دل میں سناٹا سا، باقی رہ گیا - میں تجھے بھول جاؤں گا اک دن
وقت سب کچھ بدل چکا ہوگا - دینے والے نے دیا سب کچھ عجب انداز سے
سامنے دنیا پڑی ہے اور اٹھا سکتے نہیں
محاورات
- (ایمان کی کہیں گے) ایمان ہے تو سب کچھ (سچ کہینگے)
- اس نے بھینٹے سب کچھ مانگا
- اللہ کا دیا سب کچھ
- ایمان رہے جائے سب کچھ
- بندے کا چاہا کچھ نہیں ہوتا۔ اللہ کا چاہا سب کچھ ہوتا ہے
- پیٹ سب کچھ کراتا ہے
- تقدیر سیدھی ہے تو سب کچھ
- جائے ایمان رہے سب کچھ
- جان ہے تو جہان ہے۔ جان ہے تو سب کچھ
- جس نے بیٹی دی اس نے (رکھا کیا سب کچھ دے دیا) کیا اٹھا رکھا۔ جس نے بیٹی دی اس نے سب کچھ دیا