سجن کے معنی
سجن کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ سَجَن }
تفصیلات
iاصلاً سنسکرت زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ اردو میں سنسکرت سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٤٣٥ء کو "کدم راؤ پدم راؤ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["باندھنا","بھلا مانس","تیار ہونا","سلیقہ شعار","عزت دار","معزز آدمی","نیک آدمی","ہتھیار باندھنا یا لگانا"]
اسم
صفت ذاتی
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : سَجْنوں[سَج + نوں (واؤ مجہول)]
سجن کے معنی
"سبھی سجنوں نے جواہر لال کے خلاف مظاہرے کئے اور واپس جاؤ کے نعرے لگائے۔" (١٩٨٢ء، آتش چنار، ٣٦٤)
آؤ سجن گھر آؤ رے اب تو ہم کو سونی رات ڈرائے کاری کاری بدلی رلائے بجلی من میں آگ لگائے (١٩٤٦ء، طیور آوارہ، ١٨٣)
سجن کے مترادف
بالم, رفیق, معشوق, نفیس, محبوب
اچھا, پہریدار, خاندانی, سنتری, شریف, صالح, گھاٹ, محافظ, معزز, مہذب, نجیب, نیک, کپڑے
سجن english meaning
(F. کچی kach|chi) Raw(flour or briek)(of colour) not fast fading awayabortiveallyedcrudedoormatgreengrosshalfbakedhalf-doneimmatureinexperiencednot finalizedpartially clay-builtroughsub-standardunbakeduncookedundevelopedunripeweakyoung
شاعری
- رکھتے ہیں آب اپسی موتی سے دانت تردے
مٹی میں مل گیا ہے سجن کی چمک سے ہیرا - نس دن سجن تجھ بن مجھے تن برہ کا بھارا ہوا
تجھ چاند کے درسن بدل پک یک انجھو تارا ہوا - سجن کے مکھ تھے کھلے ہیں امید پھول مرے
دندے کے سرکوں پتھر پر پچھاڑ پارہ کروں - نس دن سجن تجھ ہجر میں رہتے ہیں باب چشم وا
تا دزد خواب آوے نہیں پتلی ہے اس میں پاسبان - سجن مکھ کا اوجالا چند تھے آلا
اَدَھر تھے جووے جم امرت پیالا - پہنچے ہیں منزل سالکاں تجھ حسن کے پرتوستی
یہ نور تیرا اے سجن ہے شمع راہ عاشقاں - سجن کو دیکھ کے دشوار ہے بجارہنا
نگاہ تیز نگاہاں ہے خار آتش حسن - سجن مکتب میں جب آیا ہر اک کوں
ہوا ہے شوق تعلیم و تعلم - ترک مت کر گفتگو تفرید کی
جن کو لذت ہے سجن کے دید کی - اب جاؤں کاں پوچھوں کے منج پر کُبلَ بچھراٹ ہے
یک باٹ گے ہوں گے سجن پن جیو بارہ باٹ ہے
محاورات
- جھوٹے کی کچھ پت نہیں سجن جھوٹ نہ بول۔ لکھ پتی کا جھوٹ سے دو کوڑی ہو مول
- سجن پیت لگائے کے دور دیس جن جاؤ۔ بسو ہماری ناگری ہم مانگیں تم کھاؤ
- سجن تم جھوٹ مت بولو خدا کو سانچ پیارا ہے۔ کہاوت ہے بڈوں کی یوں کدھی سانچا نہ ہارا ہے
- سجن چت کبھو نہ دھریں درجن جن کے بول۔ پاہن مارے آم کو تو جھل دیت امول
- سجن دکھیا کر گئے اور سکھ کو لے گئے ساتھ۔ اب دکھ دے نیارے بھئے میری ہور نہ پوچھی بات
- سجن سکارے جائیں گے اور نین مریں گے رو۔ بدھنا ایسی رین کر کہ بھور کبھو نہ ہو
- سجن سکارے جائیں گے اور نین مریں گے‘ رو بدھنا ایسی رین کو بھور کبھی نہ ہو
- سکھ دکھ میں جو رہے سہائی۔ سجن وا کو بولیں بھائی
- سیج سجنا۔ سنورنا
- فرش سجا ہونا۔ سجنا