سر بازار کے معنی

سر بازار کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ سَرے + با + زار }

تفصیلات

iفارسی زبان سے ماخوذ اسم |سر| کے بعد کسرہ اضافت لگا کر فارسی اسم |بازار| لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور متعلق فعل استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٨٧٦ء سے "مقالات حالی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بازار میں","بھری خلقت میں","سب کے روبرو","شاہ راہ عام پر","عام لوگوں میں","عام میں","علی الاعلان","عین بازار میں","کھلے طور پر"]

اسم

متعلق فعل

سر بازار کے معنی

١ - بیچ بازار (میں)، شارع عام پر، سب کے سامنے، علی الاعلان۔

 پندار یوسفی سہی، پندار ہی تو ہے بازار کی یہ شے سر بازار ہی تو ہے (١٩٨٠ء، تشنگی کا سفر، ١١)

سر بازار english meaning

openlysomesomeone or the other

شاعری

  • گھر اُس کے جاکے آتے ہیں پامال ہوکے ہم
    کرئے مکاں ہی اب سر بازار ایک طرح
  • آنکھ الجھی مری اس پردہ نشیں سے جاکر
    جس کی جوتی نے نہ رکھا سر بازار قدم
  • چل سیر کوٹک تو بھی کہ سودائی نے تیرے
    بازار نیا اک سر بازار لگایا
  • جھنڈے ان کے سر بازار گڑے رہتے ہیں
    کیسی نازک ہو پوزیشن پہ اڑے رہتے ہیں
  • قابل رحم ہے اس شخص کی رسوائی بھی
    پردے پردے ہی میں کم بخت رسوا سر بازار
  • لے گیا دل کو کوئی رہ گزری کیا کہوں میں
    سر بہ زانو سر بازار ہوا کس باعث
  • سر بازار نہ بیٹھا کرو تم
    کچھ تو اب شان نکالو صاحب

محاورات

  • سر بازار بیچ لینا

Related Words of "سر بازار":