سم[1] کے معنی

سم[1] کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ سَم }

تفصیلات

iاصلاً سنسکرت زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں سنسکرت سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم، اسم صفت استعمال ہوتا ہے ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

[""]

اسم

صفت ذاتی ( واحد ), اسم نکرہ ( مذکر - واحد )

سم[1] کے معنی

["١ - [ قدیم ] مقابل، سامنے، نقیض، چوٹ پر، مقابلے کا۔","٢ - ہموار، یکساں، مسطح، پورا، تمام، سارا، کل، مکمل۔ (پلیٹس)","٣ - [ مجازا ] سچا، بے گناہ۔","٤ - [ کشتی،بانک ] ایک دانوں کا نام، ایک گھائی۔"]

[" جیسے توں دیا زور شمشیر کا نہ سر پنجہ ہوے تن کے سم شیر کا (١٦٦٥ء، علی نامہ، ١)","\"برہم نردوش اور سم ہے۔\" (١٩٢٨ء، بھگوت گیتا اردو، ١٧١)","\"ایک سو بیس توڑ دریافت کیے تمام گھائیاں اکہری، دہری، قرولی، سم . معلوم کیں۔\" (١٨٠٤ء، گلزار چین، ٤٠)"]

["١ - [ موسیقی ] آواز، تال، سر جو آخری ضرب کے ساتھ وزن میں برابر ہو، مقررہ تال۔","٢ - [ ہئیت ] درمیانی ہم قدر قطع دائرہ، ہموار میدان۔ (جامع اللغات)","٣ - مانند، مثل، مشابہ۔"]

["\"دہلی کے ایوانوں کے غلام گردشوں میں ایسے افراد کی کمی نہ تھی جن کے دل اسی سم اور تال پر دھڑکتے تھے۔\" (١٩٨٢ء، آتش چنار، ٩٠١)"," عالم ہوا ہے خرم فردوس باغ کی سم من جیو سدا ہے بے غم اب شاہ ہور گدا کا (١٦١١ء، قلی قطب شاہ، کلیات، ٤٦:١)"]