سوکھ کے معنی

سوکھ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ سُوکھ }

تفصیلات

١ - سوکھنا سے ماخوذ (تراکیب میں مستعمل، جیسے: سوکھ جانا، سوکھ کر وغیرہ)۔, m["س۔ شُش، سوکھنا","سوکھنا کا"]

اسم

اسم نکرہ

سوکھ کے معنی

١ - سوکھنا سے ماخوذ (تراکیب میں مستعمل، جیسے: سوکھ جانا، سوکھ کر وغیرہ)۔

شاعری

  • گرنے لگے جو سوکھ کے پتے تو یہ کُھلا!
    گلشن تھے ہم جو آپ تو موسم بھی ہم ہی تھے
  • کبھی برسات میں شاداب بیلیں سوکھ جاتی ہیں
    ہرے پیڑوں کے گرنے سے کوئی موسم نہیں ہوتا
  • بل بے گرمی بت قاتل نے جو مارا نیزہ
    تپش دل سے مری آب ستاں سوکھ گئے
  • زمیں میں سمایا تحیر سے آب
    گئے سوکھ آنسو کنویں کے شتاب
  • شدت غم کا تقاضا تھا کہ دواے گلرو
    ظلم کے ڈر سے مگر سوکھ گئے تھے آنسو
  • کس طرح ہو نہ سوکھ کے کانٹا تن نزار
    مژگاں کی یاد دل میں مرے خار خار ہے
  • اس درد سوں مےں سوکھ خجل جانے نہ تیوں جیو ہر سبل
    ہور میں نہ جانے کیوں اے دل فریاد پر بھاری کرے
  • یاد میں اس کی قامت کی میں لوہو رو رو سوکھ گیا
    آخر یہ خمیازہ کھینچا اس خرچ بالائی کا
  • نکلا ہوا تن سوکھ روئی بال رگیں نخ
    حلوا ہوئے چرخا ہوئے لپسی ہوئے چمرخ
  • اے موسم خزاں لگے اس سر کو تیرے آگ
    بلبل اوداس بیٹھی ہے اک سوکھ ڈنڈ پر

محاورات

  • آپ گیلے میں سوئی مجھے سوکھے میں سلایا
  • آنتیں سوکھنا
  • آنسو سوکھ جانا
  • ابھی چھٹی کا دودھ نہیں سوکھا
  • ابھی چھٹی کا دودھ نہیں سوکھا۔ ابھی دودھ کے دانت نہیں ٹوٹے
  • ابھی منہ کی دال نہیں جھڑی۔ ابھی ہونٹوں کا دودھ نہیں سوکھا (ہے)
  • انتظار میں سوکھنا
  • اکیلا سو باولا، دوکیلا سوسنگ، تکیلا سوکھٹ پٹ، چوکیلا سوجنگ
  • باتھ ‌سوکھا ‌فقیر ‌بھوکا
  • بدن سوکھ کر کانٹا ہوجانا

Related Words of "سوکھ":