شانہ کے معنی
شانہ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ شا + نَہ }
تفصیلات
iفارسی سے اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٩٧ء کو "دیوانِ ہاشمی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔, m["جولاہے کا کنگھا","دھوم دھام","دھوم و دھام کا","ذی رتبہ","رعب داب والا","شہد کی مکھیوں کا چھتّہ","عزت دار","مونڈھے کی ہڈی"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- واحد غیر ندائی : شانے[شا + نے]
- جمع : شانے[شا + نے]
- جمع غیر ندائی : شانوں[شا + نوں (و مجہول)]
شانہ کے معنی
"جب دعا مانگنے کے لیے بار گاہِ الٰہی میں ہاتھ اٹھاؤ تو بہتر صورت یہ ہے کہ ہاتھ شانوں تک اٹھے ہوئے ہوں" (١٩٨٥ء، روشنی، ١٢٧)
"یہ بغلی اوزار ہے جو ہنسلی، شانے اور سرے بنانے کے کام آتا ہے" (١٩٤٨ء، انجینری کار خانہ کے عملی چالیس سبق، ١٢)
انگرائیاں جو لیں مرے اس تنگ پوش نے چولی نکل نکل گئی شانہ مسک گیا (١٨٣٢ء، دیوانِ اند، ٢٠:١)
شانہ کے مترادف
کاندھا, کنگھی, کندھا
باعظمت, عالیشان, مشط, مونڈھا, کاندھا, کندھا, کنگھا, کنگھی
شانہ کے جملے اور مرکبات
شانہ بشانہ, شانہ بیں, شانہ بینی, شانہ سر, شانہ شکن, شانہ آویزی
شانہ english meaning
the shoulder-blade
شاعری
- پنجہ سے مرا پنجہ‘ خورشید میں ہر صبح
میں شانہ صفت سایۂ و زلفِ بتاں ہوں - شانہ کرکے گیسو رخساروں پہ کیوں بکھرا دیے
بال آئینوں میں ڈالے اس سے کیا حاصل ہوا - محمد روح تھا جان جہاں تھا بلکہ جاناں تھا
تعالٰی شانہ یہ جلوہ کب درخورد انساں تھا - تیرا انداز سخن شانہ زلف الہام
تیری رفتار قلم جنبش بال جبریل - کوئی کہتا نہیں کے دانت ہیں تیرے منھ میں
دیکھیو شانہ کو کیا سر پہ چڑھا جاتا ہے - ٹل گئی سے سے بلا اپنا مقدر کھل گیا
میرے سر میں آج دست یار کا شانہ ہوا - جہاں کہ بیٹھ کے زلفوں کو تونے شانہ کیا
سب اس زمیں کا تختہ بنفشہ زار ہوا - چشم سییہ میں سرمہ دے ، زلف رسا میں شانہ کر
قتل جہاں کے واسطے تازہ پھر اک بہانہ کر - شانہ کٹا کسی نے جو روکا سپر پہ وار
گنتی تھی زخمیوں کی نہ کشتوں کا کچھ شمار - زلفوں کے جب الجھتے ہیں اس ساتھ آکے بال
دیتا ہے شانہ عاجزی سے دانت تب نکلال
محاورات
- اندھے کا نشانہ
- بال باندھا نشانہ اڑانا
- پیش ازیں من ہم دریں باغ آشانہ داشتم
- تضحیک کرنا (یا نشانہ بنانا)
- تیر قضا کا نشانہ ہونا
- تیر قضا کا نشانہ کرنا
- تیر نگاہ کا صید (نشانہ) بنانا
- دل کو نشانہ بنانا
- شانہ رہ جانا
- شانے سے شانہ چھلنا