شاید کے معنی
شاید کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ شا + یَد }
تفصیلات
iفارسی مصدر |ستایستن| سے فعل مضارع |شاید| اردو میں بطور کلمۂ شک استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٧٦٩ء کو "آخرگشت" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["ہونا","ظّنِ غالب","ظن غالب","مگر لفظ باید کے ساتھ آتا ہے","ممکن ہے"]
شایستن شایَد
اسم
حرف فجائیہ
شاید کے معنی
١ - احتمال یا امکان ہے، ممکن ہے۔
اس جگہ شاید کبھی اس کا بسیرا ہو سلیم ایک چڑیا دیر تک بیٹھی رہی دیوار پر (١٩٨٣ء، سلیم احمد، چراغ نیم شب، ٩٠)
٢ - غالباً، ظنِ غالب یہ ہے، ہو سکتا ہے۔
کچھ موجِ ہوا پیچاں اے میر نظر آئی شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی (١٨١٠ء، میر، کلیات، ٢٧٧)
شاید کے مترادف
غالباً
باشد, باید, زیبا, شایستن, غالباً, لائق, لَعّل, مگر, ممکن, نوان, کداچت
شاید english meaning
tainted with sin [A~ لوث]
شاعری
- کہیں ہیں میر کو مارا گیا شب اُس کے کوچے میں
کہیں وحشت میں شاید بیٹھے اُٹھ گیا ہوگا - شاید کسو کے دل کو لگی اُس گلی میں چوٹ
میری بغل میں شیشہ دل چور ہوگیا - شاید کباب کر کر کھایا کبوتراں نے
نامہ اُڑا پھرے ہے اُس کی گلی میں پرسا - شاید جگر گداختہ یک لخت ہوگیا
کچھ آب دیدہ رات سے خوں ناب سا ہوا - کثرت میں درد و غم کے نہ نکلی کوئی طپش
کوچہ جگر کے زخم کا شاید کہ تنگ تھا - چڑھی تیوری چمن میں میر آیا
گل حُسن آج شاید کچھ خفا تھا - باغ جیسے راغ وحشت گاہ ہے
یاں سے شاید گل کا موسم ہوگیا - رحم کی جگہ کی ہے پیدا شاید اُس کے دل میں بھی
دیکھ رہا ہے مُنہ کو ہمارے حال ہمارا سُن کر آج - ہوں رہگزر میں تیرے ہر نقشِ پا ہے شاید
اُڑتی ہے خاک میری باد صبا ہے شاید - لوہو آنکھوں میں اب نہیں آتا!
زخم اب دل کے بھر گئے شاید
محاورات
- آپ گھر کو پھر جائیے شاید دھوکے میں آپ بھول پڑے
- در بیشہ گماں مبرکہ خالیست شاید کہ پلنگ خفتہ باشد
- شاید تمہاری بختاوری (کمبختی) آئی ہے
- شاید موت سر پر سوار ہے
- شاید کہ ہمیں بیضہ برآید پر و بال
- ہر بیشہ گماں میر کہ خالی ست۔ شاید کہ پلنگ خفتہ باشد
- ہر چہ در دیرنیا بد دل بستگی نشاید