شفاعت کے معنی
شفاعت کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ شَفا + عَت }بخشش سفارش
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٩١ء کو "قصہ فیروز شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بیچ میں آنا","آدمیوں کے گناہوں کی معافی کی سفارش","بیچ بچاؤ","درمیان میں پڑنا","گناہوں کی معافی کی سفارش (کرنا ہونا کے ساتھ)"],
شفع شَفاعَت
اسم
اسم مجرد ( مؤنث - واحد ), اسم
اقسام اسم
- لڑکا
شفاعت کے معنی
"ہمیں اپنے جرم کا اعتراف ہے لیکن . ہم اس عذر کو اپنی شفاعت میں پیش کر سکتے ہیں" (١٩٨٥ء، مولانا ظفر علی خان، بحیثیت صحافی، ١٤٣)
"اور قیامت کے روز حضور اپنی امت کی شفاعت کے لیے اللہ کے حضور عرض کریں گے" (١٩٨٨ء، صحیفہ، لاہور، اکتوبر، ٥٥)
"اس قسم میں مریض خایف زدہ رہتا اور اپنے خالق کے فرایض کے بہ نسبت غمگین خیالات پیدا کرتا ہے کہ کوئی صورت شفاعت کی نہیں ہے" (١٨٦٠ء، نسخہ عملِ طب، ٣٨٣)
شفاعت کے مترادف
توسط
توسط, توسُل, خواہش, سفارش, شَفَعَ, وساطت
شفاعت کے جملے اور مرکبات
شفاعت خواہ, شفاعت گر, شفاعت نامہ
شفاعت english meaning
Deprecationintercessionrecommendationentreaty((Plural) نسخ nu|sakh) prescriptioncopy (of book)edition [doublet of PREF.]Shafaat
شاعری
- رتبہ بمٹ و شفاعت روبت پروردگار
آخر بت کا ملیت مختم فوز و ظفر - کمال الدین عاصی ہے جناب پاک میں تیری
محمد کی شفاعت اور خدا کی دید کا آزی - نہیں تمنا بغر منجہ ہے بضاعت
کہ منجھ عاصی پوتم کرنا شفاعت - جس کے ہے ہیبت شفاعت سیں
کھل بلی حشر کے مواقف میں - خال رخسار نہیں گوے سعادت ہے یہ
مجھ سے مجرم کے لئے شفاعت ہے یہ - کی قدر مجرموں کی شفاعت نے روز حشر
اتنے گناہ نکلے کہ میزان پٹ گئی - اٹھا رکھا ہے اک بار شفاعت اس نزاکت پر
ترے حرف کمر کا میم نقطہ ہے ندارد کا - کدورت سوں صفا کر راہ میرا
نبی کوں کر شفاعت خواہ میرا - فرمان دو عالم تری توقیع سے نافذ
تیری ہی شفاعت پہ رحیمی کی بنا ہے - تب آواز آیا کہ میرے رفیق
شفاعت منگواؤ ہوئے گا شفیق
محاورات
- پیر تو آپ ظہیر( ہی درماندہ ہیں) شفاعت کس کی کریں (کریں گے)
- نہ خدا کا دیدار نہ محمد صلى الله عليه وسلم کی شفاعت