شمشاد کے معنی

شمشاد کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ شَم + شاد }طویل قامتلمبا، خوبصورت درخت

تفصیلات

iفارسی زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو زبان میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٦٤ء کو "دیوانِ حسن شوقی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔, m["ایک خوش قد درخت کا نام جو سرد کی قسم میں سے ہے اور اکثر معشوق کے قد کو اس سے تشبیہ دیتے ہیں","ایک لمبا خوبصورت درخت","کنایتاً معشوق کا لمبا قد"], ,

اسم

اسم نکرہ ( مذکر - واحد ), اسم

اقسام اسم

  • لڑکی
  • لڑکا

شمشاد کے معنی

١ - ایک خوش قد درخت جس کے پتے آس اور انار کے پتوں کی طرح ہوتے ہیں شاخیں پریشان پھول سفید اور خوشبودار ہوتا ہے، اس کی لکڑی سخت اور مضبوط ہوتی ہے جس کی کنگھیاں بھی بناتے ہیں جو بالوں کی جڑوں کو مضبوط کرتی ہیں۔

 نہ کم مان دسے دولت آباد کوں نہ سر پار کر دیِکہ شمشاد کوں (١٥٦٤ء، دیوان حسن شوقی، ٨٣)

٢ - [ کنایۃ ] معشوق خوش قامت نیز کسی خاتون کا پروقار قد و قامت۔

شمشاد بیگم، شمشاد قمر، شمشاد بتول، شمشاد نسرین

شمشاد الرضوان، شمشاد محمد، حارث شمشاد، شمشاد علی

شمشاد english meaning

a swordbox-treedestroyed by moisturemoistthe box-treeShamshad

شاعری

  • ہر تار زلف قیمت فردوس ہے ترا
    کرتا ہے کون طرۂ شمشاد کی طرف
  • چمن میں سو یوں سرو و شمشاد ہیں
    فقیروں منے پونچہ آزاد ہیں
  • دونون مہمل ہیں صنوبر بھی محل سے نکلے
    ایک شمشاد کو تم کرتے ہو آزاد عبث
  • پاؤں کی مہندی سے ہاتھ آئی یہ بات
    باغ ابراہیم کے شمشاد ہو
  • بانس لگواتا ہے اکثر جاکے وہ بالا بلند
    سرور شمشاد و صنوبر کے شجر پر ان دنوں
  • لال کرتی کی بٹالن ہے شقایق کا ہجوم
    سرو کپتان تو شمشاد بناہے کرنل
  • عضو تن اون کے خراطے ہیں کسی استاد کے
    پیٹ پر سیلی نہیں جوہر ہیں یہ شمشاد کے
  • شکر ایزد کہ ازیں باد خزاں رختہ لیاقت
    بوستان سمن و سرود گل و شمشاد است
  • ے سرو خراماں توں نہ جا باغ میں چل کر
    مت قمری و شمشاد کے سودے میں خلل کر
  • سرو و شمشاد و صنوبر کو نہیں کچھ نسبت
    قد بالا کو ترے ہم نے بلا کا دیکھا

Related Words of "شمشاد":