شکر کے معنی
شکر کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ شُکْر }{ شَکَر }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں اپنی اصل ساخت اور مفہوم کے ساتھ بعینہ داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوانِ حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔, iفارسی سے اردو میں اصل ساخت کے ساتھ بعینہ داخل ہوا۔ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اور سب سے پہلے ١٤٢١ء کو "معراج العاشقین" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["اندر کا لقب","ایک عورت جس کے ساتھ خسرو نے شیریں کی مرضی کے خلاف شادی کرلی تھی","بے داغ","خدا کے احسانوں کی تعریف","شکریہ ادا کرنا","معشوق کے ہونٹ","میٹھی گفتگو","میٹھے الفاظ","کئی پودوں کا نام","کسی کے احسان کے تعریف کرنا احسان ماننا"]
شکر شُکْر
اسم
اسم مجرد ( مذکر - واحد ), اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
شکر کے معنی
"شکر، منعم کی نعمت پر اقرارِ نعمت کرنا، احسان مندی۔" (١٩٨٤ء، فنِ تاریخ گوئی اور اس کی روایت، ١١٦)
شکر پردہ ہی میں اس بت کو خدا نے رکھا ورنہ ایمان گیا ہی تھا خدا نے رکھا (١٨٥٤ء، ذوق، دیوان، ٧٠)
"سورۃ فاتحہ کے علاوہ اس کو سورۃ شفاء . اُم القرآن، الحمد . شکر، دعا، صلوۃ بھی کہتے۔" (١٩٧٤ء، کاشف الاسرار، ١٨)
"جب تک انسان نے شکر کی تیاری کے طریقے سے واقفیت حاصل نہ کرلی اس وقت تک راب کو معمولی حیثیت حاصل رہی۔" (١٩٨٤ء، جدید عالمی معاشرتی جغرافیہ، ٣٦)
شکر شُکر کی خلق کوں ہر گلی لگے بانٹنے راوراج ات بلی (١٦٥٧ء، گلشنِ عشق، ٦٠)
"عورت عجب ہے شکرولے اس شکر میں تمام بھرے ہیں مکر۔" (١٦٣٥ء، سب رس، ٢٤٨)
"شکر، شکری . اس خرما کے اقسام ہیں جن میں شکر زیادہ ہے۔" (١٩٠٧ء، فلاحۃ النحل، ٥٠)
شکر کے مترادف
چینی, قند, کھانڈ
’’طاقتور‘‘, بورا, تری, تعریف, چمکدار, چینی, خالص, درخشاں, روشن, سپاس, سفید, شوگر, شکریہ, شیرینی, قند, مصری, منور, مِٹھا, نبات, کھانڈ
شکر کے جملے اور مرکبات
شکر گزار, شکر سرائی, شکر گزاری, شکر نعمت, شکرقندی, شکر دانی, شکر فروش, شکر خوار, شکر خورا, شکر خوری, شکردان, شکر دہاں, شکر رنج, شکر افشاں, شکر افشانی, شکر آب, شکر آبی, شکر آمیختہ, شکر آمیز, شکر بار, شکر بچن, شکر بھتا, شکر پارہ, شکر پاشیدگی, شکر پالا, شکر پسند, شکر مقال, شکر کی چھری, شکر دان
شکر english meaning
thanksgratitudethanksgivingpraise (to God)sugar; sweet words or speechcryrise a sloganshout [P]
شاعری
- اُس کا تو شہد و شکر ہے ذوق میں ہم ناکاموں کے
لوگوں میں لیکن پوچ کہا یہ لطفِ بے ہنگام کیا - موئے تو ہم پہ دل پر گو خوب خالی کر
ہزار شکر کسو سے ہمیں گلا نہ رہا - لذتِ زہر غم فرصتِ دلداراں سے
ہووے منہ میں جنھوں کی شہد و شکر مت پوچھو - شکر کر داغ دل کا اے غافل
کس کو دیتے ہیں دیدۂ بیدار - حلاوت سے اپنی جو آگاہ ہو تو
چپک جائیں باہم دے لعل شکر بار - اے کاش ہم کو شکر کی حالت رہے مدام
تاحال کی خرابی سے ہم بے خبر رہیں - نہ دیکھا غم دوستاں شکر ہے
ہمیں داغ اپنا دکھا کر چلے - صد شکر گزاری ہے قیامت تنِ تنہا
اس رات کسی نے مری حالت نہیں دیکھی - ہزار شکر کہ مایوس کردیا تُونے
یہ اور بات کہ تجھ سے بھی کچھ امیدیں تھیں - شکر کر قید سے صیاد کی ہوتی ہے رہا
آبودانہ ترا اے بلبل شیدا اٹھا
محاورات
- (کے) منہ میں گھی شکر
- آدھی روٹی پاؤ بھر شکر
- اللہ شکر خورے کو شکر ہی دیتا ہے
- انڈوئی بنڈوئی شکر پارے کی لوئی
- ایک کا منھ شکر (ایک کھانڈ) سے بھرا جاسکتا ہے دس (ایک سو) کا منھ خاک سے بھی نہیں بھرا جاسکتا
- ایک کا منہ شکر سے بھرا جاتا ہے سو کا منہ خاک سے بھی نہیں بھرا جاتا۔ ایک منہ موتیوں سے بھرا جاتا ہے سو خاک سے نہیں بھرے جاتے
- بات شیر و شکر ہونا۔ بات شیریں ہونا
- بس کر میاں بس کر۔ دیکھا تیرا لشکر
- بڈھی بھینس کا دودھ شکر کا گھولنا۔ بڈھے مرد کی جورو گلے کا ڈھولنا
- بھاگے ہوئے لشکر کا مرد پیچھا نہیں کرتا