طلب گار کے معنی

طلب گار کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ طَلَب + گار }

تفصیلات

iعربی زبان سے مشتق اسم |طلب| کے ساتھ |گار| بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے مرکب |طلب گار| بنا۔ اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ ١٥٦٤ء کو "دکنی ادب کی تاریخ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m[]

اسم

صفت ذاتی ( واحد )

طلب گار کے معنی

١ - طلب کرنے والا، خواہش مند، جویا۔

"کینتھ برک . اپنے آپ کو نئے نقادوں کی جماعت کے حوالے سے پہنچانے جانے کے طلب گار نہیں تھے۔" (١٩٨٧ء، افکار، کراچی، جولائی، ١٤)

طلب گار english meaning

seekingdesirous (of)

شاعری

  • عالم میں کوئی دل کا طلب گار نہ پایا
    اس جنس کا یاں ہم نی خریدار نہ پایا
  • کھو ہی رہا نہ جان کو ناآزمودہ کار
    ہوتا نہ میر کاش طلب گار عشق کا
  • عشق کا ہے یہ تقاضہ کہ ملے دل کی مُراد
    حسن کو ضد ہے یونہی میرا طلب گار رہے
  • نئے سخن کی طلب گار ہے، نئی دنیا
    وہ ایک بات پرانی، کہیں تو کس سے کہیں
  • دھمکی میں مرگیا جو نہ باب نبرد تھا
    عشق نبرد ہمیشہ ، طلب گار مرد تھا
  • شیریں ادائے دہر طلب گار مال ہیں
    سب کی گرہ ٹٹولتے ہیں نیشکر فروش
  • جنت کو کیا کرے گا طلب گار دوست کا
    دونوں جہاں میں اس کو وہ گلگوں قبا ہے بس
  • طلب ہے جو غالب طلب گار پر
    کرے ناز ہنر وند خریدار پر
  • سگل راجداری طلب گار اُس
    ہوئی جان تن سوں خریدار اُس
  • تجھ سے ملے نہ تھے تو کوئی آرزو نہ تھی
    دیکھا تجھے تو تیرے طلب گار ہوگئے

Related Words of "طلب گار":