عالم گیر کے معنی

عالم گیر کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ عا + لَم + گِیر }

تفصیلات

iعربی زبان سے مشتق اسم |عالم| کے ساتھ فارسی مصدر |گرفتن| سے فعل امر |گیر| بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے مرکب |عالمگیر| بنا۔ اردو میں بطور صفت نیز اسم استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بادشاہ عظیم الشان","جہان کو لینے اور فتح کرنے والا"]

اسم

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )

عالم گیر کے معنی

١ - دنیا کو فتح کرنے والا، دنیا کو گرفت یا قبضے میں لے لینے والا، آفاقی، ہمہ گیر۔

"سعداللہ خان نے عرض کی کہ اس میں شک نہیں عالمگیر عالمگیر ہو گا۔" (١٨٧٣ء، عقل و شعور، ٢٦)

٢ - دنیا میں یا دور دور تک پھیلنے والا، دنیا کو اپنے اثر میں لینے والا، عالمی۔

"کسی ایک ملک کی تہذیب کو نہیں، عالمگیر انسانی تہذیب کو بلکہ خود بقائے انسانی کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔" (١٩٨٧ء، غالب، کراچی، ١، ٣٦٣:٢)

٣ - شاہی دور میں غیر منقسم ہندوستان کے مغل بادشاہ اورنگ زیب کا لقب۔

"یہ قاعدہ تین سو سال سے بھی زیادہ پرانا ہے اور فضائل خاں کی زباں دانی اور عالم گیر کی اصابت کا ثبوت ہے۔" (١٩٨٦ء، نگار، کراچی، اگست، ٤٥)

عالم گیر english meaning

Conquering the universe; world-wideuniversalgeneral

شاعری

  • مجھ پیر عالم گیر کا مردود سو مقہور ہے
    گھر بار اس ناپاک کا یک بارگی تل پٹ ہوا
  • مجہ پیر عالم گیر کا مردود سو مقہو ہے
    گھر بار اس ناپاک کا یک بارگی تلپٹ ہوا
  • جگ میں اے خورشید وہ چرخ زن ہے ذرہ وار
    جن نے دل باندھا ہے تیرے حسن عالم گیر سوں

محاورات

  • اس سے کیا حاصل کہ شاہ جہاں کی داڑھی بڑی تھی یا عالم گیر کی

Related Words of "عالم گیر":