غدار
{ غَد + دار }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق کلمہ ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی اور ساخت کے ساتھ بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔
["غدر "," غَدّار"]
اسم
صفت ذاتی
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : غَدّاروں[غَد + دا + روں (و مجہول)]
غدار کے معنی
١ - باغی، مفسد، نمک حرام، خیانت کرنے والا، بے وفا، بدعہد۔
اب کس کا اعتبار محبت میں کیجئے جب دل ساماں نثار بھی غدار ہو گیا (١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٣٣)
٢ - اپنے وطن یا قوم سے دشمنی کرنے والا، ملک کا دشمن۔
"ان کے خیال میں بنگالی بھی اسے غدار سمجھنے لگے تھے۔" (١٩٨٦ء، سندھ کا مقدمہ، ٤٤)
٣ - بہت گہرا، اتھاہ (کنویں وغیرہ کے لیے)
سو نین اس کے دو چاہ غدار ہیں کہ سر تین ہور پات سو چار ہیں (١٦٠٩ء، قطب مشتری، ٥٢)
٤ - بہت بڑا وسیع و عریض (مکان یا بستی کے لیے)۔
"ان کی غدار سے غدار آبادی میں نکھٹو چند ہی سو ہوتے ہیں ان ہی میں سے رانی اپنا منگیتر چُن لیتی ہے۔" (١٩٤٠ء، شہد کی مکھیوں کا کارنامہ، ٢٠)
مترادف
سرکش, مفسد
انگلش
["very perfidious","faithless","treacherous; deceitful","fraudulent","sly"]