قاتل کے معنی
قاتل کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ قا + تِل }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم فاعل ہے۔ اردو میں عربی سے معنی اور ساخت کے اعتبار سے من و عن داخل ہوا اور بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "میناستونتی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["جان سے مارنے والا","جان لیوا","خونی آدمی","قتل کرنیوالا","قتل کرنے والا آدمی","ہلاک کنندہ"]
قتل قاتِل
اسم
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جنسِ مخالف : قاتِلَہ[قا + تِلَہ]
- جمع ندائی : قاتِلو[قا + تِلو (و مجہول)]
- جمع غیر ندائی : قاتِلوں[قا + تِلوں (و مجہول)]
قاتل کے معنی
"یہ تو پکا چور ہے غنڈا، قاتل، خونی بنے گا۔" (١٩٨٧ء، روز کا قصہ، ١٣٤)
"غلطی سے جو چیز دوا سمجھ کر کھائی قاتل تھی، ہلاکت وقوع میں آئی۔" (١٩٣٠ء، اردو گلستان، ٨٣)
کوئی سمجھے نہ سمجھے خود ہمارا دل سمجھتا ہے! ہمیں بھی اپنے جانبازوں میں وہ قاتل سمجھتا ہے (١٩١٠ء، خوبی سخن، ٣١)
قاتل کے مترادف
سفاک, جلاد
جلاد, خونی, سفاک, صفت, قَتَلَ, گھاتک, گھاتِک, مارنہار, مارُو, مارک, معشوق, مہلک, نہار, کشندہ, کُشندہ, ہتیارا, ہلاہل, ہمتیارا
قاتل کے جملے اور مرکبات
قاتل الذئب, قاتل الکلب, قاتل بالخطا, قاتل عمد
قاتل english meaning
a murdereran assassinassasin homicidedeadlyfatalmortalmurderer
شاعری
- گرم ہوگا حشر کو ہنگامۂ دعویٰ بہت!
کاشکے مجھ کو نہ لے جاویں مرے قاتل کے پاس - دست و پا مارے وقتِ بسمل تک
ہاتھ پہنچا نہ پائے قاتل تک! - کریں استادگی آیا تھا جی پہ قتل ہونے میں
یہ اپنا کام ہے قاتل یہ اس کو دیر کیا کریئے - جان کی پروا پھر کس کو ہو جب قاتل ہو یاروں سا
باتیں ہوں دلداروں جیسی‘ لہجہ ہو غم خواروں سا - ڈھیلا پڑتا تھا سولی کا پھندا اُس کی گردن پر
میرے قاتل کو منصف نے فدیہ لے کر چھوڑ دیا - شرع و آئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی - قاتل کے کیوں قدم سے تڑپ کے پڑا ہے دُور
بسمل تو اپنے ہاتھ سے شرطِ وفا نہ دے - قاتل بھی ظہیر اب دامن کے دھبوں کو چھپاتا پھرتا ہے
اس دھج سے مل کے چہروں پر ہم خونِ شہیداں آئے ہیں - قاتل کو کوئی قتل کے آداب سکھائے
دستار کے ہوتے ہوئے سر کاٹ رہا ہے - حسن والے میرے قاتل ہیں یہ دعویٰ ہے میرا
حسن والوں کو سزا ہو‘ مجھے منظور نہیں