قافلہ کے معنی
قافلہ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ قا + فِلَہ }{ قا + فِلہَ }
تفصیلات
iعربی زبان سے اسم جمع ہے اردو میں ١٨٢٤ء، کو مصحفی نے استعمال کیا۔, iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں بلحاظ معنی و ساخت من و عن داخل ہوا اور اسم کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٢٤ء کو "دیوانِ مصحفی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["سفر سے واپس آنا","جاتریوں کی سموہ","حاجیوں کا گروہ","سودا گروں کا گروہ جو مال ایک ملک سے دوسرے ملک میں لے جائے","گروہِ سیّاحاں","گروہِ مسافراں","لغوی معنی سفر سے واپس پھرنے والا گروہ","مسافروں کا گروہ","مسافروں یا تاجروں کا گروہ"]
قفل قافِلَہ قافِلہَ
اسم
اسم جمع ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع : قافِلے[قا + فِلے]
- جمع غیر ندائی : قافِلوں[قا + فِلوں (و مجہول)]
- واحد غیر ندائی : قافِلے[قا + فِلے]
قافلہ کے معنی
ازل سے قافلہ ارتقا روانہ تھا جو آج پہنچا ہے انساں کے آستانے تک (١٩٥٩ء، پتھر کی لکیر، ٦٤)
"اسے اپنے قافلہ سے بڑا لگاؤ تھا"۔ (١٩٨٧ء، حصار، ٢٧)
ازل سے قافلۂ ارتقا روانہ تھا! جو آج پہنچا ہے انسان کے آستانے تک (١٩٥٩ء، پتھر کی لکیر، ٦٤)
قافلہ کے مترادف
کارواں
رعیر, سابلہ, سیّارہ, قَفَلَ, میدنی, کاروان, کارواں
قافلہ کے جملے اور مرکبات
قافلہ سالار
قافلہ english meaning
A body of travellers or traders; a caravanA body of travellers or traders; caravancaravan
شاعری
- ٹپکتے زخم کی گلکاریوں میں اُترا ہے
نظر کا قافلہ کن وادیوں میں اُترا ہے - ہے لہو کا قافلہ اب تک رواں
اور قاتل، کربلا میں رہ گئے - کہاں ہے قافلہ بادِ صبا کا!
دلوں کے پھول مرجھانے لگے ہیں - عجیب موڑ پہ ٹھہرا ہے قافلہ دل کا
سکون ڈھونڈنے نکلے تھے وحشتیں بھی گئیں - دونوں سے چلوپوچھیں اس کو کہیں دیکھا ہے
اک قافلہ آتا ہے اک قافلہ جاتا ہے - جب خاتمہ بخیر ہوا فوج شاہ کا
کوثر پہ پہنچا قافلہ پیاسی سپاہ کا - راہ غم اور قافلہ دل کس کو خبر ہے منزل کی
شور جرس ، آواز حدی خواں بانگ منادی کچھ بھی نہیں - اے گر یہ پس قافلہ دل نام ہے اک یار
یہ خستہ بھی نبھ جائے جو یکدم ہو توقف - اے گریہ بس قافلہ دل نام ہے اک یار
یہ خستہ بھی نبھ جائے جو یک دم ہو توقف - خیمے مسافران عدم نے نکالے ہیں
جس قافلہ میں تم ہو وہ سب چلنے والے ہیں
محاورات
- کتا بھونکا ہی کرتا ہے۔ ہاتھی چلا ہی جاتا ہے۔ کتا بھونکے قافلہ سدھارے