قحط کے معنی
قحط کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ قَحْط (فتحہ ق مجہول) }
تفصیلات
iعربی زبان سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں بمعنی و ساخت من و عن داخل ہوا اور اسم کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٦٥کو "علی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بارش نہ ہونا","بارش کے نہ ہونے کے باعث غلہ کا گراں ہوجانا","خشک سالی","نایابی کسی چیز کی","کال (پڑنا ہونا کے ساتھ)","کال خشک سالی"]
قحط قَحْط
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع : قَحْطوں[قَح + طوں (واؤ مجہول)]
- جمع غیر ندائی : قحْطوں[قَح + طوں (و مجہول)]
قحط کے معنی
"میں نے بنگال کا قحط دیکھا اور تڑپ اُٹھا۔" (١٩٨٧ء، اک محشرِ خیال، ٨٨)
"اس موقع پر جبکہ پنجاب میں پہلے ہی پانی کا قحط ہے . اس کے وسیع رقبوں کو نہری پانی سے محروم کر دینا سراسر زیادتی بلکہ ظلم ہے۔" (١٩٨٥ء، پنجاب کا مقدمہ، ١٤٤)
قحط کے مترادف
کال[1]
اکال, توڑا, تڑاقا, جدب, خسارہ, فقدان, قَحَط, قلّت, گرانی, مہنگا, مہنگائی, نامیسّری, نایابی, نقصان, ٹوٹا, کال, کمی, کمیابی
قحط کے جملے اور مرکبات
قحط الرجال, قحط زار, قحط زدگان, قحط سالی, قحط کا مارا
قحط english meaning
droughtscarcitydearth; failure of the crops or harvest; famine; wantpenuryhungerstarvation
شاعری
- عجیب قحط پڑا اب کے سال اشکوں کا
کہ آنکھ تر نہ ہوئی خون میں نہا کر بھی - نصیب میں ہو غم قحط جن غریبوں کے
اُڑائیں چاپ و مٹن کیا وہ تلخ کام نشاط - جس سر زمیں میں تیرا دیوانہ ہوگا مدتوں
بیڑی چلے گی اس میں جب قحط آب ہوگا - محبت ک ہو جس دم قحط گاہک دل کے آتےہیں
گراں ہوتا ہے جب سودا تو چلنی ہے دکاں میری - رندوں پہ قحط مے نہیں لازم ہے میفروش
ڈاکہ کہیں نہ لائیں یہ تیری دکان پر - وہ فصل ربیعی کے خرمن کے ڈھیر
جنھیں دیکھ کر قحط سالی ہو سیر - کہاں سے لاؤں شب و روز کی غذا کے لیئے
یہ قحط ہے کہ نہیں زہرِ غم دوا کے لیئے - بے صرفہ کور ہیں مثلِ دیاقین قحط سال
خوانِ بلا یہ عشق کی مہمانیوں میں ہم
محاورات
- قحط پڑنا