قربانی
{ قُر + با + نی }
تفصیلات
iعربی زبان سے ماخوذ اسم |قربان| کے ساتھ |ی| بطور لاحقہ نسبت ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٥٠٣ء میں قلمی نسخہ "لازم المبتدی" میں مستعمل ملتا ہے۔
["قرب "," قُرْبانی"]
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : قُرْبانِیاں[قُر + با + نِیاں]
- جمع غیر ندائی : قُرْبانِیوں[قُر + با + نِیوں (و مجہول)]
قربانی کے معنی
ہوں وہ قربانی کہ جس کو غیر قربانی کریں خون ناحق میں مرے تو ہاتھ اپنا بھر نہیں (١٨٧٨ء، سخن بیمثال، ٥٩)
"اون کے لیے خاص مورتیں بناتے ہیں اور قربانیاں ذبح کرتے ہیں۔" (١٨٦٦ء، تہذیب الایمان (ترجمہ)، ٥٩٥)
"احادیث میں ہے کہ یہ نماز آپ پر بمنزلہ فرض کے تھی اور اس کے ساتھ قربانی کا حکم بھی۔" (١٩٦٣ء، سیرۃ النبیۖ، ٧٦٢:٣)
"روحانی تسلی کے لیے قربانی اور دان کی تلقین کے سوا ان کے پاس کچھ نہ تھا۔" (١٩٥١ء، تاریخ تمدن ہند، ٩٢)
"ہندوستان کی آزادی کے جرنیلوں میں . کتنے ہی مشاہیر کی آو سحرگاہی اور قربانیوں کا نم موجود ہے۔" (١٩٨٢ء، آتش چنار، ٨٣٤)
دوری ہوئی اس گھر سے بس اب دل کو یقیں ہے قربانی شبیر کا ہنگام قریں ہے (١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ١:٣)
"فورڈ کے لیے تو دس لاکھ ڈالر کی قربانی کو جھیلنا ایک آسان کام تھا۔" (١٩٤٤ء، آدمی اور مشین، ١٤٤)
محروم گو حرم سے رہے، پر زہے نصیب داخل تو آج ہو گئے قربانیوں میں ہم (١٩٦٣ء، کلام جوہر، ١٠٦)
مترادف
صدقہ, ایثار, بھینٹ, نذر
انگلش
["a sacrifice","a victim"]