قوالی کے معنی
قوالی کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ قَو + وا + لی }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاث مجرد کے باب سے مشتق اسم |قوال| کے ساتھ |ی| بطور لاحقہ نسبت ملانے سے |قوالی| بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٣٧ء میں "مثنوی بہاریہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["اجتماعی نغمہ سرائی","خنیا گری","رامش گری","صوفیانہ اور حقانی چیزوں کا گانا","صوفیانہ یا حقانی چیزیں گانا","صوفیوں کی مجلس سرود","غنائے صوفیانہ","قوال کا پیشہ","قول سرائی","نغمہ سرائی"]
قول قَوّال قَوّالی
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : قَوّالِیاں[قَو + وا + لِیاں]
- جمع غیر ندائی : قَوّالِیوں[قَو + وا + لِیوں (و مجہول)]
قوالی کے معنی
"امیر خسرو نے گیتوں میں جو شاہراہیں قائم کی ہیں ان کے علاوہ کوئی نئی ڈگر اب تک نہیں بنی یعنی ہولی، رنگ، بسنت کے متصوفانہ گیت، قول قلبانہ اور قوالی جس نہج پر ڈال گئے اس کے علاوہ کوئی نیا راستہ تلاش نہ کر سکا۔" (١٩٨٦ء، اردو گیت، ١٣١)
قوالی کے مترادف
سماع
سماع