لب جو کے معنی
لب جو کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ لَبے + جُو }
تفصیلات
iفارسی زبان سے ماخوذ اسم |لب| کے آخر پر کسرۂ اضافت لگا کر فارسی اسم |جو| لگانے سے مرکب اضافی |لب جو| اردو میں بطور اسم اور گاہے بطور متعلق فعل استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٥٤ء کو "غنچۂ آرزو" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["ندی کا کنارہ"]
اسم
اسم ظرف مکاں ( مذکر - واحد ), متعلق فعل
لب جو کے معنی
["١ - نہر کا کنارا، ندی کا کنارا۔"]
[" چاند ہے پھول ہیں، لب جو ہے میرے پہلو میں دل نہیں تو ہے (١٩٨٦ء، شعلۂ گل، ٢٣١)"]
["١ - لب دریا، نہر کے کنارے۔"]
[" بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لب جو بیٹھے سنتے ہیں جام بکف نغمۂ کو کو بیٹھے (١٩٢٤ء، بانگ درا، ١٨٥)"]
شاعری
- جوں سبزہ چل چمن میں لب جو پہ سیر کر
ُعُمر عزیز جاتی ہے آب رواں کی طرح - خوش پیکر و خوش جمال و خوش رو
چھٹکی ہوئی چاندنی لب جو - فرش سبزہ پر لب جو مجھ کو پینی ہے شراب
خیمۂ ابر سیہ اے آسماں استادہ ہو - بھوکوں کو سیب و بہ میں راہ خدا کھلاؤں
بوسہ کو لب جو پہونچیں ان غبغب و ذقن پر - چاند ہے پھول ہیں‘ لب جو ہے
میرے پہلو میں دل نہیں تو ہے - وہ پہلوان سادہ لب جو پہ ڈنڈ پیل
بولا کہ کوئی غش ہو تو ایسی بہسنڈ پر - بھوکوں کو سیب و بہ میں راہ خدا کھلاؤں
بوسے کو لب جو پہنچیں ان غبغب و زقن پر - ہو کر ترانہ سنج لب جو کے پاس بیٹھ
سو سو طرح سے جھاڑے ہے اپنے بزار پر