لب دریا کے معنی

لب دریا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ لَبے + دَر + یا }

تفصیلات

iفارسی زبان سے ماخوذ اسم |لب| کے آخر پر کسرۂ اضافت لگا کر فارسی اسم |دریا| لگانے سے مرکب اضافی |لب دریا| اردو میں بطور اسم اور گا ہے بطور متعلق فعل استعمال ہوتا ہے۔ ١٨١٠ء کو "کلیات میر" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["ساحل دریا","ساحل دریا کا کنارہ","کنارہ رود"]

اسم

اسم نکرہ ( مذکر - واحد ), متعلق فعل

لب دریا کے معنی

["١ - دریا کا کنارا، ساحل۔ (جامع اللغات، علمی اردو لغت)"]

["\"شاہراہ پر پہنچ گیا، یہ لب دریا واقع بہت کافی لمبی سڑک ہے۔\" (١٩٨٨ء، افکار، کراچی، مئی، ٢٣)"]

["١ - دریا کے کنارے، دریا پر۔"]

شاعری

  • ہر اک مژگاں پہ میرے اشک کے قطرے جھمکتے ہیں
    تماشا مفت خوباں ہے لب دریا چراغاں ہے
  • پانی سے آنکھ تک لب دریا خشک نہ کر
    میں واری سب کی آنکھوں میں مجھ کو سبک نہ کر
  • تھالی پھرتی ہے یہ کثرت ہے پری زادوں کی
    منزلوں تک ہے برابر لب دریا میلا
  • تو سن پہ کیا کہ برق پہ نوشاہ ہیں سوار
    یاں تک ہے خوش قدم لب دریا جو ہمو گزار
  • لب دریا نہ کرتا مے کشی گر یہ سمجھتا میں
    کہ مانگے گا لڑائی مجھ سے بے خوف و خطر پانی
  • یار ہو سات تو پھر بر لب دریا دیکھو
    لطف دیتی ہے یہ کیا کیا شب مہتاب میں موج
  • آبی پوشاک پہنتا ہوں میں پیش اغیار
    میں ہی لڑواتا ہوں مینڈھے لب دریا ہر بار
  • نذر کو لے کے گہر مردم آبی دوڑے
    جب پریرو کی سواری لب دریا نکلی