لچھے دار کے معنی
لچھے دار کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ لَچھ + چھے + دار }
تفصیلات
iسنسکرت زبان سے ماخوذ اسم |لچھے| کے بعد فارسی مصدر |داشتن| سے صیغہ امر |دار| بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے مرکب بنا۔ اردو زبان میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٦٢ء کو "شبستان سرور" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔, m["پر لطف","پرت دار","پیچ در پیچ","پے در پے","جواب، منطق وغیرہ کے ساتھ","حلقہ دار","خوش آئندہ","سلسلہ وار","سلسلہ وار علی الاتصال"]
اسم
صفت ذاتی
لچھے دار کے معنی
"سڑک پر کانٹوں والی لچھے دار تاریں بچھا کر آمد و رفت کا راستہ بند کر دیا گیا ہے۔" (١٩٩٣ء، افکار، کراچی، مارچ، ٥٣)
"اس کےلچھے دار سیاہ بال تھے اور براؤن آنکھیں تھیں۔" (١٩٨٨ء، نشیب، ٤٤)
"انوری کے اس غیظ کا اخشتام ایک لچھے دار گالی پر ہوتا ہے۔" (١٩٨٥ء، فنون، لاہور، جون، ٢٣٥)
"وہ دِل موہ لینے والی لچھے دار باتیں کرتے رہیں گے۔" (١٩٨٥ء، تفہیم اقبال، ٣٤٤)
"جب وہ گاتی لچھے تان اوڑاتی۔" (١٨٦٢ء، شبستان سرور،)
"کاہے کو سالی بمبئی نے ایسی لچھے دار موٹریں دیکھی ہوں گی . جیسے کسی نے ریشم کا تھان کھول کر سڑک پر بچھا دیا ہے۔" (١٩٦٨ء، ماں جی، ١٠٧)