لگاؤ کے معنی
لگاؤ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ لَگا + او (و مجہول) }
تفصیلات
iسنسکرت کے اصل لفظ |لگانا| کا حاصل مصدر |لگاؤ| اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٢٣ء کو "مختصر کہانیاں" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["انا ٣","اور ٧،٨","ایسا برتاؤ جس سے التفات پایا جائے","ایک مکان سے دوسرے میں آمدورفت ہوسکنا","جڑنے والا","راہ ورسم","ربط ضبط","لگانے والا","متصل ہونا"]
لگانا لَگاؤ
اسم
اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
لگاؤ کے معنی
"اس کو ایک لگاؤ تو عالم غیب سے ہے اور دوسرا عالم شہود سے۔" (١٩٣٢ء، سیرۃ النبیۖ ، ٤٠٣:٤)
"اور جمی جولا ہے کہ شیاما کے ساتھ لگاؤ تھا۔" (١٩٨٦ء، جوالامکھ، ١١٥)
"غرض کہ کسی جانب سے چور کا لگاؤ نہیں ہے۔" (١٨٩٩ء، امراؤ جان ادا، ١٨٥)
"ایاز کے چھوٹے بیٹے کا میرے ساتھ بہت لگاؤ تھا۔" (١٩٨٨ء، نشیب، ٣٠٢)
"یہ امر پایۂ ثبوت کو پہنچ گیا کہ بخش علی کا بھی ان انسانیت سوز کارروائیوں میں دخل اور لگاؤ ہے۔" (١٩٥٦ء، بیگمات اودھ، ١٤٧)
"سودا کو مزاجاً ویسے بھی تجارت سے کوئی لگاؤ نہ تھا۔" (١٩٧٥ء، تاریخ ادب اردو، ٦٥٨:٢)
"اس بات میں ان کا بھی کچھ نہ کچھ لگاؤ ہے۔" (١٩٠١ء، فرہنگ آصفیہ، ٢٠٣:٤)
یہ لگاؤ تو مجھے اس کا مزا دیتا ہے مجکو ہر ایک سے ناحق جو لگا دیتا ہے (١٩٠١ء، فرہنگ آصفیہ، ٢٠٣:٤)
"خالص پارسی زبان لکھی جائے جس میں عربی کا مطلق لگاؤ نہ ہو۔" (١٩٣٥ء، چند ہمعصر، ٤٤١)
"اس میں ایک خاص موضوع سے لگاؤ پیدا کرتا ہے۔"١٩٨٦ء، نفسیاتی تنقید، ٢٤٦
لاکھوں لگاؤ ایک چرانا نگاہ کا لاکھوں بناؤ ایک بگڑنا عتاب میں (١٨٦٩ء، غالب، دیوان، ١٨٩)
عید بھی وصل سے چلی خالی کچھ گلے لگنے کا لگاؤ نہیں (١٨٦٧ء، رشک (نور اللغات)۔)
"ہر ایک گاڑی زنجیر کے لگاؤ سے اوس کے ساتھ چل نکلتی۔" (١٨٤٧ء، عجائبات فرنگ، ١٨)
"دو نوع ٹھہرانے کی یہ وجہ ہے کہ تین پہلے ایک لگاؤ کے ہیں اور تین پچھلے ایک لگاؤ کے۔" (١٨٤٥ء، علم الفرائض، ١٦)
"امیر نے اس قلعے کے سب لگاؤ معلوم کر لیے تھے، تھوڑے دنوں میں مورچہ لگا دیا، دمدمہ باندھ. قلعے پر چڑھ گیا۔" (١٨٢٤ء، سیر عشرت، ٣٨)
لگاؤ کے مترادف
شغف, علاقہ, ناتا, نسبت
آمیزش, ایما, باریابی, پہنچ, جوڑ, دخل, رسائی, رشتہ, شراکت, شرکت, قرابت, گر, لاگ, لگاوٹ, مشابہت, مطابقت, ملاوٹ, مناسبت, ناتہ, ہمسری
شاعری
- کانٹوں سے دل لگاؤ کہ تا عمر ساتھ دیں
پھولوں کا کیا کہ سانس کی گرمی نہ سہہ سکیں - کہ بالا سفید اور کالا ملاؤ
برابر ملا پیس انگ کوں لگاؤ - لگاؤ کوئی لاکے مرہم تو چنگا ہر گز نہ ہوئے ہو
جسے یو گھاؤ لاگا ہے ترے سو کے کے بھالے کا - آزاد سروں میں ڈھیلی گانٹھ لگاؤ پہلے بنائے چھلے میں
رسی باندھنے کے بعد گانٹھ میں گلا پھنسانا ‘ مچھواری - کیا قہر ہے کہ پہلے مرا دل چرالیا
اب کہتے ہو یہ اور کو چوری لگاؤ تم - بہار زخم دل دیکھیں لگاؤ خون کے چھاپے
یہ ویرانہ بنے گلشن یہ کعبہ کربلا ٹھہرے - خیال کر کر ٹھکر رہا ہوں نظر جو آئے، تیور ہیں بانکے
بناؤں بنتا نہیں ہے ناجی، جو اس بجن کو لگاؤ چھتیاں - مج سے بولو یا نہ بولو پاس آؤ یا نہ آؤ
پر لگاؤ مونہ نہ اتنا کر دو دور اغیار کو - لگاؤ کوئی لا کے مرہم تو چنگا ہر گز نہ ہوئے ہو
جسے یو گھاؤ لاگا ہے ترے سوکے کے بھالے کا - لگاؤ نہ کاجل کے تل اپنے منہ پر
ابھی خاک میں گر کے اختر ملیں گے
محاورات
- آگ بھی نہ لگاؤں
- آگ میں باغ نہ لگاؤ
- اینٹ کی عینک لگاؤ
- سگندھ لگاؤں تو ابھر مروں۔ ابھ مروں پہنے تن ساڑھی۔ ہار چنبیلی کا بھاری لگت۔ تم جانت ہو تن کی سکھواری
- نومی گوگا پیر مناؤں، نا چرخے کو ہاتھ لگاؤں
- کوٹھی کٹھلے کو ہاتھ نہ لگاؤ گھر بار (بی بی آپ کا) سب تمہارا
- کیا آگ لگاؤں۔ کیا آگ لینے آئے تھے